حمیراعلیم
25 دسمبر جہاں ہمارے عیسائی بہن بھائیوں کے لیے اہم دن ہے وہیں پاکستانی عوام کے لیے بھی اہم ہے۔یہ دن اس لحاظ سے منفرد ہےکیونکہ عیسائی اس دن یوم ولادت عیسٰی علیہ السلام مناتے ہیں اور ہم بانی پاکستان قائداعظم کا یوم پیدائش۔یوں یہ دن تاریخ اور مذہبی ہم آہنگی کا امتزاج بن جاتا ہے۔عیسٰی علیہ السلام نے لوگوں کو امن، محبت اور انسانیت کا درس دیا ۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ 25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔انہوں نے اصول پسندی اور قانون کی حکمرانی پر یقین دلایا۔یہ بات اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے کہ قائداعظمؒ نے پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانے کا خواب دیکھا تھا جہاں ہر شہری کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔وہ اقلیتوں کے حقوق کے حامی تھے۔
ان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ:
"آپ آزاد ہیں آپ اپنے مندروں میں جائیں، آپ اپنی مسجدوں میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔"
ان کی اسی سوچ کا پرتو 25 دسمبر والے دن ہمارے ہاں نظر آتا ہے جب ایک مسلم ریاست میں قائداعظم اور عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش ایک ساتھ منایا جاتا ہے۔اور سرکاری سطح پر تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔عیسائی بھائیوں کوخاص طور پر چھٹیاں دی جاتی ہیں کہ وہ اپنے مذہبی تہوار کو پورے جوش و خروش سے منا سکیں۔
عیسی علیہ السلام صرف عیسائیوں کے لیے ہی قابل احترام نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی اہم نبی ہیں۔کیونکہ قرآن میں ان کے بارے میں دو سورتیں نازل ہوئیں آل عمران اور مریم۔ان کی زندگی سے ہمیں محبت، درگزر، عاجزی اور انسانیت کا سبق ملتا ہے۔
کرسمس والے دن عیسائی چرچز اور گھروں کو سجاتے ہیں مناجات کرتے ہیں۔لیکن پاکستان میں کرسمس دنیا بھر سے کچھ مختلف یوں ہوتی ہے کہ ایک طرف سانتا کلاز نظر آتا ہے توساتھ ہی پاکستان کا جھنڈا لہراتا دکھائی دیتا ہے۔کرسمس کیکس کے ساتھ قائداعظم کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ٹی وی چینلز پر قائداعظم اور کرسمس کے بارے میں پروگرامز نشر ہوتے ہیں۔یہ وہ حسین امتزاج ہے جو شاید صرف پاکستان ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔سوشل میڈیا پر بھی کچھ ایسی پوسٹس نظر آتی ہیں:"قائداعظمؒ آپ کا شکریہ "
" میری کرسمس"۔
اچھی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دونوں پیغامات ایک ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
اس دن تعلیمی اداروں میں خصوصی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔
کہیں قائداعظم کی تقاریر، خاکے اور ٹیبلوز پیش کئے جاتے ہیں۔قائداعظمؒ کی جدوجہد پر تقاریر ہوتی ہیں اور ساتھ ہی مذہبی ہم آہنگی کے پیغامات بھی دیے جاتے ہیں۔ تو کہیں کرسمس کے حوالے سے امن اور محبت کے پیغامات دیے جاتے ہیں۔یوں طلباء سیکھتے ہیں کہ مذہبی رواداری، برداشت اور احترام ملکی امن و امان کے لئے کس قدر اہم ہیں۔
مذہبی ہم آہنگی کا مطلب صرف ایک دن کی تقریبات یا سوشل میڈیا پوسٹس تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ سوچ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہونی چاہیے۔ اگر ہم واقعی عیسی علیہ السلام کے پیغام اور قائداعظم کے اصولوں کو سمجھ لیں تو معاشرے میں نفرت، تعصب اور تقسیم باقی نہ رہیں ۔
یہ دن اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی بنیاد جس نظریے پر رکھی گئی تھی وہ بالکل درست تھا۔ اس دن ہم سیکھتے ہیں کہ احترام کے ساتھ اختلاف ممکن ہے۔
مذہبی ہم آہنگی کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔ اگر ہم قائد کے اصولوں کو اپنائیں توقائداعظم کا پاکستان آج بھی ممکن ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا صدیوں پہلے تھا۔
25 دسمبر دراصل ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان صرف ایک الگ ملک ہی نہیں بلکہ ایک الگ سوچ کا مظہر بھی ہے۔ یہ سوچ انصاف، مساوات اور برداشت کی ہے۔ جب ہم قائداعظم کی سالگرہ اور عیسی علیہ السلام کا یوم ولادت ایک ساتھ مناتے ہیں تو دراصل ہم اسی سوچ کو زندہ کرتے ہیں۔
پاکستانیوں کی ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی اس ملک کا اصل حسن ہے۔اگر ہم سارا سال 25 دسمبر کی طرح رواداری اور احترام کا مظاہرہ کریں تو ایک زیادہ پرامن، مضبوط اور خوبصورت پاکستان ممکن ہے۔ہمیں اس دن اپنا احتساب کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا ہم قائداعظم کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں؟ کیا ہم نے مذہبی اقلیتوں کو وہ مقام دیا ہے جس کا وعدہ ان سے کیا گیا تھا؟ 25 دسمبر محض جشن کا دن نہیں بلکہ خود احتسابی کا دن بھی ہے۔یہ دن اس عزم کے اعادے کا دن ہے کہ قومیں صرف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے مضبوط بنتی ہیں۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ ہمارے اقلیتی بھائی پورے خلوص اور وفاداری کے ساتھ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، افواج اور دیگر شعبوں میں ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ 25 دسمبر ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم ان خدمات کو تسلیم کریں اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ وہ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح پر رواداری کو فروغ دیا جائے۔ جب بچے اسکولوں میں یہ سیکھیں گے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے احترام کے مستحق ہیں تو مستقبل میں ایک متوازن اور پرامن معاشرہ تشکیل پائے گا۔ہمارا ملک مذہبی کشیدگی اور تنازعات کا شکار ہے۔اگر ہم عیسی علیہ اور قائداعظم کی تعلیمات و افکار پر عمل کریں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک مثالی ملک بن سکتا ہے۔ہمیں صرف نام کا مسلمان نہیں بننا بلکہ اپنے کردار اور اخلاق سے خود کو عیسی علیہ السلام کا سچا پیروکار ثابت کرنا ہے۔
