سیدہ قرۃ العین
ہماری روزمرہ زندگی میں صبر کا لفظ بہت عام ہے۔ جب کوئی تکلیف ہو تو کہا جاتا ہے صبر کرو۔ جب ناانصافی ہو تو بھی یہی مشورہ ملتا ہے کہ صبر کرو۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن میں صبر کی ایک ایسی تصویر بن گئی ہے جس میں انسان بس خاموش ہو جاتا ہے بولنا چھوڑ دیتا ہے اور سب کچھ دل میں دبا لیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی صبر کا مطلب یہی ہے کہ انسان چپ ہو جائے اور کچھ نہ کرے۔ یا صبر اس سے کہیں زیادہ گہرا اور با معنی تصور ہے۔
صبر کا اصل مطلب برداشت کے ساتھ درست رویہ اختیار کرنا ہے۔ صبر کمزوری نہیں بلکہ ایک شعوری فیصلہ ہے۔ صبر کا مطلب یہ نہیں کہ ظلم سہتے رہو اور آواز نہ اٹھاؤ بلکہ صبر یہ ہے کہ جذبات میں بہہ کر غلط ردعمل نہ دو۔ صبر انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ مشکل حالات میں بھی اپنے کردار اور اقدار کو نہ چھوڑے۔
ہم اکثر صبر کو خاموشی سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ خاموش رہنا آسان لگتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر خاموشی صبر نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی خاموشی خوف کی وجہ سے ہوتی ہے کبھی مجبوری کی وجہ سے اور کبھی سہولت کی وجہ سے۔ صبر وہ خاموشی ہے جو سمجھ بوجھ کے ساتھ اختیار کی جائے۔ وہ خاموشی جس کے پیچھے نیت اصلاح کی ہو نہ کہ کمزوری کی۔
صبر کے بہت سے فائدے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صبر انسان کو اندر سے مضبوط بناتا ہے۔ جو شخص صبر کرتا ہے وہ وقتی جذبات کے بجائے دور اندیشی سے فیصلے کرتا ہے۔ صبر ذہنی سکون دیتا ہے کیونکہ انسان ہر بات پر فوراً ردعمل نہیں دیتا۔ صبر تعلقات کو بچاتا ہے کیونکہ بہت سے جھگڑے صرف جلد بازی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
صبر کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کو خود احتسابی سکھاتا ہے۔ صبر کرنے والا شخص پہلے خود کو دیکھتا ہے پھر دوسروں کو۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اس صورتحال میں میری ذمہ داری کیا ہے اور میں بہتر کیا کر سکتا ہوں۔ یہی سوچ انسان کو پختہ بناتی ہے۔
لیکن اگر صبر کو غلط طریقے سے سمجھا جائے تو اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر صبر کے نام پر انسان ہر ظلم سہنے لگے اور اپنی عزت نفس کو روندنے دے تو یہ صبر نہیں بلکہ خود کو نقصان پہنچانا ہے۔ اگر صبر کے نام پر کوئی عورت یا مرد مسلسل ذہنی یا جسمانی اذیت برداشت کرے تو یہ دین یا اخلاقیات نہیں بلکہ ناانصافی ہے۔
غلط صبر انسان کے اندر غصہ جمع کرتا رہتا ہے۔ بظاہر وہ خاموش ہوتا ہے لیکن اندر سے ٹوٹ رہا ہوتا ہے۔ ایک دن یہی دبے ہوئے جذبات کسی غلط موقع پر پھٹ پڑتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ صبر اور خاموشی میں فرق سمجھا جائے۔
اصل صبر یہ ہے کہ انسان حق بات کرے لیکن تہذیب کے ساتھ۔ اصل صبر یہ ہے کہ انسان احتجاج کرے لیکن حدود میں رہ کر۔ اصل صبر یہ ہے کہ انسان وقت کا انتظار کرے لیکن کوشش ترک نہ کرے۔ صبر اور حکمت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
ہمارے دین میں بھی صبر کو بہت بلند مقام دیا گیا ہے لیکن یہ صبر عمل کے ساتھ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا لیکن ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھائی۔ صبر کا مطلب یہ نہیں کہ حق کو چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ حق کے لیے جدوجہد میں اخلاق کو نہ چھوڑا جائے لیکن بد قسمتی سے بہت سے لوگوں کو صبر کی صحیح روح کا علم نہیں چپ رہ کر ہم پتھر ہو جاتے ہیں اور اسکو صبر کا نام دیتے ہیں ۔
بلکہ صبر نہ تو مکمل خاموشی کا نام ہے اور نہ ہی ہر بات برداشت کر لینے کا صبر ایک متوازن رویہ ہے یہ انسان کو سکھاتا ہے کہ کہاں رکنا ہے کہاں بولنا ہے اور کہاں مضبوطی سے کھڑا ہونا ہے اگر ہم صبر کو اس صحیح معنی میں سمجھ لیں تو ہماری زندگی میں بہت سی الجھنیں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں۔
