سعدیہ بی بی

 

کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ ہم کہاں سے کہاں آگئے ہیں۔ کبھی وقت تھا جب زندگی سادہ تھی، لوگ کم تھے اور دل ایک دوسرے کے قریب تھے۔ محلے صرف گھروں کا مجموعہ نہیں ہوتے تھے بلکہ ایک خاندان کی طرح ہوتے تھے۔ ہر شخص دوسرے کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتا تھا۔ اگر کسی ایک گھر میں خوشی ہوتی تو پورا محلہ خوش ہوجاتا، اور اگر کہیں غم آجاتا تو سب کے دل بوجھل ہو جاتے تھے۔ آج ہم ایک ہی گلی میں رہتے ہیں، ایک ہی عمارت میں سانس لیتے ہیں، مگر ایک دوسرے سے بالکل اجنبی ہو چکے ہیں۔

 

پہلے زمانے میں جب کسی گھر میں فوتگی ہوتی تھی تو اس کا اعلان پورے محلے میں سنا جاتا تھا۔ وہ اعلان صرف الفاظ نہیں ہوتے تھے بلکہ ایک احساس ہوتا تھا، ایک پیغام ہوتا تھا کہ کسی کا اپنا اُس سے بچھڑ گیا ہے۔ اعلان کی آواز جیسے ہی فضا میں گونجتی، لوگ خاموش ہو جاتے۔ کان لگا کر سنتے کہ کون سا گھر ہے، کس پرغم آیا ہے۔  لوگ کام چھوڑ کر، باتیں روک کر، خاموشی سے اس اعلان کو سنتے تھے۔ گھروں میں ادب کا ماحول ہوتا تھا۔ 

 

ہماری دادیاں اور نانیاں ہمیں سمجھاتیں تھیں کہ "آواز آہستہ رکھو، پڑوس میں فوتگی ہوئی ہے۔" ٹی وی بند کر دیا جاتا، ہنسی مذاق روک دیا جاتا، حتیٰ کہ بچوں کو بھی خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی تھی۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں سکھائی جاتی تھیں، لیکن اصل میں یہی باتیں بڑی تربیت ہوتی تھیں۔

 

جنازے میں شرکت کو لوگ بوجھ نہیں بلکہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ چاہے کام ہو یا مصروفیت، جنازے میں جانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ وقت نہیں ہے یا دل نہیں ہے۔ لوگوں کو احساس ہوتا تھا کہ آج کسی اور کا غم ہے، کل ہمارا بھی ہو سکتا ہے۔

 

اذان کا احترام بھی زندگی کا حصہ تھا۔ اُس وقت کی اذانیں بھی ایک الگ ہی کیفیت رکھتی تھیں۔ اذان کی آواز جیسے ہی فضا میں گونجتی، پورا محلہ خاموش ہوجاتا تھا۔ دکانوں میں کام روک دیا جاتا، گھروں میں باتیں بند ہو جاتیں، ریڈیو اور ٹی وی بند ہو جاتے، بڑے بھی ادب سے اذان سنتے تھے اور بچوں کو بھی سکھایا جاتا تھا کہ اذان کے وقت شور نہیں کرنا۔ لوگ اذان کا جواب دیتے تھے، دل سے دیتے تھے، صرف رسم کے طور پر نہیں۔

 

آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ آبادی بڑھ گئی ہے، عمارتیں اونچی ہو گئی ہیں، مگر دل ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں۔ اب اگر کہیں فوتگی کا اعلان ہو بھی جائے تو شور میں دب جاتا ہے۔ اور اگر سن بھی لیا جائے تو اکثر لوگ کہتے ہیں: " ہمیں کیا، بعد میں دیکھیں گے، ابھی وقت نہیں۔" ہر کوئی اپنی مصروف زندگی میں گم ہے۔ کسی کے پاس رکنے کا وقت نہیں، کسی کے پاس سننے کا حوصلہ نہیں۔

 

 آج کل تو کئی جگہوں پر ایسا بھی ہورہا ہے کہ شادیوں کا شور، ڈی جے اور موسیقی اتنی اونچی ہوتی ہے کہ قریب سے جنازہ گزر جاتا ہے، مگر کسی کو احساس نہیں ہوتا۔ نہ آواز کم کی جاتی ہے، نہ رک کر سوچا جاتا ہے۔ جیسے کسی کا غم ہمارا مسئلہ ہی نہ ہو۔ ڈھول کی تھاپ، ڈی جے کا شور اور قہقہے اور ان سب کے بیچ ایک خاموش جنازہ۔ یہ منظر صرف آنکھوں کو نہیں، دل کو بھی زخمی کر دیتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ موسیقی غلط ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے احترام کہاں چھوڑ دیا؟

 

اذان کی آواز بھی اب اسی شور کا حصہ بن گئی ہے۔ گاڑیوں کے ہارن، موبائل فون، بازاروں کی آوازیں ان سب میں اذان کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ لوگ مصروف ہیں، اتنے مصروف کہ چند لمحے رکنا بھی مشکل لگتا ہے۔ نہ خاموش ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے، نہ جواب دینا۔ اذان اب بہت سے لوگوں کے لیے صرف بیک گراؤنڈ آواز بن چکی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اذان کی آواز کم ہو گئی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہماری توجہ کم ہو گئی ہے۔

 

ہم اکثر نئی نسل کو الزام دیتے ہیں کہ وہ بے حس ہو گئی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل وہی سیکھتی ہے جو ہم سکھاتے ہیں۔ اگر بچے ہمیں جنازے کا احترام کرتے نہیں دیکھیں گے، اذان پر خاموش ہوتے نہیں دیکھیں گے، تو وہ کیسے سیکھیں گے؟ تربیت کتابوں سے نہیں، عمل سے ہوتی ہے۔

 

آج کی زندگی بہت تیز ہو گئی ہے۔ اصل مسئلہ شور نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سننا چھوڑ چکے ہیں۔ ہم نے سہولتوں کے بدلے احساس دے دیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں، مگر شاید ہم پیچھے جا رہے ہیں۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ احترام، خاموشی اور دوسروں کے دکھ کا خیال رکھنا ہماری طاقت تھی۔ آج یہ سب کمزور ہو رہا ہے۔ ہم ایک ہی محلے میں رہتے ہیں، مگر ایک دوسرے سے بے خبر ہیں۔ ہم آن لائن تو جڑے ہوئے ہیں، مگر دلوں سے دور ہو گئے ہیں۔

 

اب وقت ہے کہ ہم تھوڑا سا رکیں۔ شور کم کریں۔ کسی کے غم میں خاموش ہونا سیکھیں۔ اذان کے وقت چند لمحے تھم جائیں۔ یہ چھوٹی باتیں ہیں، مگر انہی سے معاشرہ زندہ رہتا ہے۔ یہ سب مشکل کام نہیں ہیں، بس نیت کی بات ہے۔ اگر ہر شخص اپنے گھر سے آغاز کرے، اگر والدین بچوں کو احترام سکھائیں، اگر ہم خود مثال بنیں، تو معاشرہ آہستہ آہستہ بدل سکتا ہے۔ تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی، مگر نیت ایک لمحے میں بدل سکتی ہے۔

 

شاید ہمیں پھر سے یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف ایک ہجوم نہیں، ایک معاشرہ ہیں۔ اور معاشرہ صرف شور سے نہیں، احساس سے بنتا ہے۔ اگر ہم نے احساس کو زندہ کر لیا، تو شاید اعلان کی آواز پھر سنی جائے، اذان پھر دلوں تک پہنچے، اور محلے پھر سے انسانوں کے ہو جائیں، صرف مکانوں کے نہیں۔