سیدہ قرۃ العین
بازار میں کبھی کبھی کوئی چیز ایسی نظر آتی ہے جو دل کو لمحے بھر کے لیے ماضی میں لے جاتی ہے۔ ہرے اور سرخ رنگ کا جڑاؤ کڑا جس میں بے جا ترتیب سے لگے ہرے اور سرخ نگ یہی کیفیت اس وقت محسوس ہوتی ہے۔ جب سنہری رنگ کا وہ کڑا نظر آئے جس کے بیچ میں چمکتے ہوئے نیلے پتھر جڑے ہوتے ہیں، دیکھتے ہی دل ایک دم پرانی یادوں میں ڈوب جاتا ہے۔
بچپن کے وہ دن، خالہ کے ہاتھ، پھپھو کا پرس، یا کسی پرانی دکان کی شیشے والی دکان میں رکھا ہوا یہی انداز وہ سادگی وہ چمک اور وہ بے ساختہ کشش جو دل کو خاموشی سے اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وقت نے لمحے بھر کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھنا شروع کر دیا ہو اور ہم دوبارہ اپنی پرانی خوشیوں کے بیچ کھڑے ہو گئے ہوں۔
آج کے دور میں بھی یہ کڑا بازاروں اور آن لائن جگہوں پر نظر آجاتا ہے۔ کبھی کوئی اسے صحت بخش کڑا کہہ دیتا ہے، کبھی اسے مقناطیسی خصوصیت والا زیور کہا جاتا ہے، اور کبھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ طاقت بڑھاتا ہے۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ کڑا فشارِ خون کو قابو میں رکھتا ہے اور دل کے بوجھ کو ہلکا کرتا ہے۔ لیکن سوال ہمیشہ وہی رہتا ہے کہ آخر یہ سب کتنا سچ ہے؟ کیا واقعی اس میں کوئی چھپی ہوئی طاقت ہوا کرتی تھی؟ یا یہ صرف ایک ایسی چیز ہے جو ہماری یادوں اور یقین نے خوبصورت بنا دی؟
اس کڑے کی پہلی کشش اس کا انداز ہے۔ سنہری حلقے اور بیچ میں لگا نیلا پتھر مل کر ایک سادہ مگر دل نشین خوبصورتی پیدا کرتے ہیں۔ 90 کی دہائی میں ایسی چیزیں بہت مقبول تھیں۔ جو چیز ذرا سی چمک دکھا دے، لوگ اسے فوراً لے لیتے۔ یہ کڑا بھی اسی دور کا ایک پسندیدہ انداز تھا۔ عام سا زیور تھا مگر اس کی سادگی میں چھپی محبت غیر معمولی تھی۔ ہر زاویے سے دیکھیں، یہ کڑا ایک چھوٹا سا فن پارہ لگتا ہے، جس میں وقت اور یادیں جمی ہوئی ہوں۔
اس زمانے میں اس کڑے کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ کوئی کہتا اس میں مقناطیس لگا ہے، کوئی کہتا نیلا پتھر دماغ کو سکون دیتا ہے کوئی اسے خون کی روانی بہتر کرنے والا سمجھتا، اور بہت سے لوگ تو اسے فشارِ خون کم کرنے کا ذریعہ بھی کہتے تھے۔ آج بھی کچھ لوگ انہی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ کسی قابل بھروسہ تحقیق نے کبھی یہ ثابت نہیں کیا کہ یہ کڑا واقعی فشارِ خون کو کم یا زیادہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیلے پتھر کی قوت ہو یا حلقوں میں چھپی توانائی یہ سب زیادہ تر اس دور کے دکان داروں کی کہانیاں تھیں، جنہیں سن کر لوگ مطمئن ہو جاتے تھے۔
لیکن ایک بات دلچسپ ہے کہ بہت سے افراد واقعی کہتے تھے کہ اس کڑے سے انہیں دل کا بوجھ کم محسوس ہوا ذہن ہلکا ہوا اور کبھی کبھی فشارِ خون بہتر لگا۔ سوال یہ ہے کہ جب اس میں کوئی حقیقی طبی طاقت نہیں تھی، تو پھر یہ احساس کیوں پیدا ہوتا تھا؟ اس کا جواب انسانی دل میں چھپا وہ نرم راز ہے جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔
انسان جب کسی چیز کو امید، سہارا یا تسلی سمجھ کر پہنتا ہے، تو اس کا ذہن خود ہی ایک سکون کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ خوف کم ہوتا ہے دل مطمئن ہوتا ہے اور یہ اندرونی سکون کچھ دیر کے لیے فشارِ خون کو بھی معمول کے قریب لے آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کڑے نے اثر دکھایا ہو، حالانکہ اصل میں یہ دل اور دماغ کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔
یہی وہ انسانی فطرت ہے جسے ہم سمجھ نہیں پاتے۔ شاید اسی لیے یہ کڑا آج دوبارہ نظر آ رہا ہے۔ لوگ بے چینی بھرے دور میں چھوٹے چھوٹے سہارے ڈھونڈتے ہیں۔ ماضی کی چیزیں دل کو سکون دیتی ہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ کسی چیز کو تھام کر تھوڑا پرسکون ہوجائے۔ یہ کڑا اسی لیے پھر سے پسند کیا جا رہا ہے نہ صرف زیور کے طور پر بلکہ ایک احساس کے طور پر بھی۔ آج کے لوگ اسے علاج نہیں سمجھتے مگر ایک اچھا سا سہارا ضرور سمجھ لیتے ہیں۔
یہ کڑا نقصان دہ نہیں ہے۔ یہ عام دھات کا زیور ہے۔ اگر کسی کو دھات سے حساسیت ہو تو ہلکی خارش ہوسکتی ہے ورنہ یہ بے ضرر ہے۔ البتہ اسے کبھی دوائی یا علاج سمجھ کر نہیں پہننا چاہیے۔ اصل سکون انسان کے اندر ہوتا ہے، کسی زیور یا پتھر میں نہیں۔
دل کی یہ فطری کیفیت اور یادوں کا سکون ایک خاص بات بتاتی ہے علاج سے پہلے تسلی ضروری ہوتی ہے۔ 90 کی دہائی میں یہ کڑا بہت سے لوگوں کی امید بنا ہوا تھا۔ آج اسی جگہ کبھی کوئی پتھر خوشبو، تعویذ یا ایک دھاگا لے لیتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ سکون کسی چیز کی طاقت میں نہیں، بلکہ انسان کے یقین ذہنی نرمی اور دل کے اطمینان میں چھپا ہوتا ہے۔
آخر میں اگر بات کو ایک سطر میں لپیٹ دیں تو وہ یہ ہے کہ یہ کڑا معجزہ نہیں بلکہ ایک احساس ہے یادوں کا سہارا دل کا معمولی سا اطمینان اور یقین کی ہلکی سی لہر جو چند لمحوں کے لیے انسان کو بہتر محسوس کرواتی ہے۔ بعض اوقات انسان کو علاج کی ضرورت نہیں ہوتی بس ایک نرم احساس کافی ہوتا ہے۔