امریکا میں آبادکاری کے منتظر افغان پی ون اور پی ٹو کیس رکھنے والے شہریوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان ری لوکیشن پروگرام کو دوبارہ شروع کرے، کیونکہ وہ پاکستان میں سخت حالات اور ممکنہ بے دخلی کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ اپیل اس واقعے کے بعد سامنے آئی جب وائٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ میں ایک افغان شہری کے حملے سے دو نیشنل گارڈ اہلکار ہلاک ہوئے، جس کے بعد امریکی حکام نے تمام افغان امیگریشن کیسز کی پراسیسنگ غیر معینہ مدت کے لیے روک دی، جن میں وہ کیسز بھی شامل تھے جن کا عمل مکمل ہو چکا تھا اور درخواست گزار صرف پرواز کی تاریخ کے منتظر تھے۔
پاکستان میں موجود افغان شہریوں کے مطابق، 20 جنوری 2025 کو یہ پروگرام بغیر کسی وضاحت کے معطل کیا گیا، جس سے ہزاروں ایسے افراد غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گئے، جنہوں نے امریکا کے ساتھ مشکل حالات میں بطور اتحادی کام کیا اور اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالا۔
جاری بیان میں انہوں نے واشنگٹن حملے کی سخت مذمت کی اور کہا کہ یہ ایک شخص کا عمل تھا اور اس ایک واقعے کو ہزاروں افغان مہاجرین کو سزا دینے کی وجہ نہیں بنایا جانا چاہیے، کیونکہ ایک فرد کا جرم کسی کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتا۔
دوسری جانب، اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے بھی پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے افغان شہری جنہیں سکیورٹی خطرات لاحق ہیں یا جن کے امریکی ری لوکیشن کیس مکمل ہو چکے ہیں، انہیں بے دخلی کے منصوبے سے الگ رکھا جائے اور پاکستان میں محفوظ رہنے دیا جائے۔
ادارے کے مطابق 2025 میں 1 ملین سے زیادہ افغان شہری پاکستان سے افغانستان واپس جا چکے ہیں، جو موجودہ حالات میں مشکلات کم کرنے کے بجائے مزید خدشات پیدا کر رہا ہے۔
پاکستان میں یو این ایچ سی آر کی نمائندہ فلپا کینڈلر نے کہا کہ عام حالات میں اتنی بڑی تعداد میں واپسی خوش خبری ہو سکتی تھی، لیکن موجودہ غیر مستحکم صورتحال میں یہ عمل مسائل کے حل کے بجائے نئے خطرات اور پریشانیوں کو بڑھا رہا ہے۔
افغان کیس ہولڈرز کا کہنا ہے کہ وہ مجرم نہیں بلکہ وہ اتحادی ہیں جو مشکل وقت میں امریکا کے ساتھ کھڑے رہے اور اب چاہتے ہیں کہ امریکا بھی ان کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ان کے انخلا کے عمل کو دوبارہ شروع کرے، تاکہ مزید انسانی مشکلات اور ممکنہ نقصان سے بچا جا سکے۔