ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
خواتین کے خلاف تشدد کا عالمی دن، پاکستانی ڈرامے کس طرح اس مسئلے کی عکاسی کر رہے ہیں؟ Home / بلاگز /

خواتین کے خلاف تشدد کا عالمی دن، پاکستانی ڈرامے کس طرح اس مسئلے کی عکاسی کر رہے ہیں؟

حمیرا علیم - 25/11/2025 213
خواتین کے خلاف تشدد کا عالمی دن، پاکستانی ڈرامے کس طرح اس مسئلے کی عکاسی کر رہے ہیں؟

حمیراعلیم

 

پاکستانی ڈرامے اکثر معاشرے کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان میں ہمارے رویوں، سماجی، اخلاقی اورمعاشی مسائل، انسانی نفسیات اور رشتوں کی پیچیدگی جیسے ایشوز اجاگر کئے جاتے ہیں۔بعض اوقات برے کام کا برا انجام بھی دکھایا جاتا ہے۔لیکن اکثر مسائل کے حل نہیں بتائے جاتے۔آج کل بھی دو ڈرامے پامال اور جمع تقسیم عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

 

پامال ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں رائٹر نے شادی شدہ زندگی میں موجود نفسیاتی انتہاؤں کو موضوع بنایاہے۔ جبکہ جمع تقسیم نے پاکستانی خاندانوں میں ہم آہنگی، رہائشی نظام اور نسلوں کے درمیان توازن کے مسئلے کو اُجاگر کیا۔ ان دونوں ڈراموں کا موازنہ واضح کرتا ہے کہ ہمارے معاشرتی مسائل صرف معاشی یا سماجی نہیں بلکہ رویّوں، سوچ اور جذباتی کمزوریوں سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔

 

پامال ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے جو لو میرج کرتا ہے۔بظاہر ہر لحاظ سے پرفیکٹ مگر اندر سے ایک دوسرے سے دور، کمزور اور غلط فہمیوں کا شکار۔ شوہر نارسسٹ ہے۔ اور بیوی شکایت، ناشکری اور خود ترسی کا شکار ہے۔ یہ دونوں رویّے بظاہر مختلف ہیں لیکن عملی زندگی میں دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے: رشتے کا ٹوٹنا، مکالمے کا ختم ہو جانا، اور جذباتی فاصلے بڑھ جانا۔

 

نارسزم دراصل ایک نفسیاتی کیفیت ہے۔نارسسٹ بظاہر پر اعتماد نظر آتا ہے مگر گہرے عدم تحفظ، خود پسندی اور احساس برتری کا مریض ہوتا ہے۔ خود کو ہمیشہ درست سمجھتا ہے۔ اسے مسلسل تعریف اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ تنقید برداشت نہیں کر پاتا اور دوسروں کے احساسات کو کمتر سمجھتا ہے۔ ایسا شخص رشتہ محبت نہیں بلکہ طاقت اور کنٹرول کے لیے بناتا ہے۔ وہ بظاہر مضبوط مگر اندر سے کمزور ہوتا ہے۔ اور یہی جذباتی کمزوری اسے انا پرستی، الزام تراشی اور جذباتی بلیک میلنگ کی طرف لے جاتی ہے۔

 

پامال میں شوہر کے کردار میں نارسزم کی ان تمام علامتوں کو حقیقت کے قریب انداز میں پیش کیا گیا ہےجس پر ناظرین میں زبردست بحث چھڑ گئی۔ کچھ افراد کے نزدیک یہ بیشتر مردوں کا کردار ہے۔جبکہ بعض کے نزدیک یہ نارسزم کی انتہا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مرد ہوں یا خواتین ہم میں نارسسٹس موجود ہیں۔جنہوں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگیاں جہنم بنا رکھی ہوتی ہیں۔

 

اسی طرح ہیروئن کا کردار بھی بہت سی ایسی خواتین کی عکاسی کر رہا ہےجو ظاہری طور پر ہر نعمت سے مالا مال ہیں :شاندار گھر، مالی استحکام، تحفظ، سہولتیں، آزادی، سسرالی سیاست سے دوری، ذمہ دار شوہر ، تحفظ ۔لیکن ان سب کے باوجود وہ مطمئن نہیں۔ اس کے رویّے میں ناشکری، موازنہ، شکایت اور خود ترسی واضح نظر آتی ہے۔ وہ ہر چیز میں کمی تلاش کرتی ہے، اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ حقیقت پسند نہیں بلکہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔ یہ رویّہ بھی رشتوں میں زہر گھولنے کے لیے کافی ہوتا ہے کیونکہ ناشکری انسان کو نعمتوں سے بے نیاز کر دیتی ہے اور گھر کا سکون چھین لیتی ہے۔

 

اکثر خواتین دوسروں سے موازنہ، حسد ، معاشرتی پریشر کی وجہ سے اپنے حالات سے غیر مطمئن دکھائی دیتی ہیں۔جب انسان اپنے حالات کا موازنہ ڈراماز سوشل میڈیا اور دوسروں کی زندگیوں سے کرتا ہے تو اس کے دل میں شکر کی جگہ بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی کیفیت میں نعمتیں بھی بوجھ لگنے لگتی ہیں اور انسان کبھی بھی زندگی انجوائے نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ دین شکرگزاری کا درس دیتا ہے: “اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید عطا کروں گا”۔ “جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔”

 

اور بدقسمتی سے احادیث یہ بھی بتاتی ہیں کہ خواتین کی بڑی تعداد جہنم میں صرف اپنے ناشکرے پن کی وجہ سے ہو گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شکرگزاری نہ صرف عبادت بلکہ رشتوں کے قائم رہنے کی بنیاد بھی ہے۔ جب کسی گھر میں شکایت اور ناشکری بڑھ جائے تو محبت آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے اور رشتے ایک دوسرے کا سہارا بننے کے بجائے بوجھ بننے لگتے ہیں۔

 

دوسری طرف ڈرامہ جمع تقسیم ایک مختلف اہم موضوع پر مبنی ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم اور الگ رہائش کے مسائل آج کے دور میں بڑی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ نہ صرف نئی نسل بلکہ والدین اور بزرگ بھی اس کشمکش کا حصہ ہیں۔ جمع تقسیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے کسی ایک نظام کو برا یا اچھا ثابت کرنے کی بجائے یہ دکھایا کہ نظام نہیں بلکہ لوگوں کے رویّے غلط ہوتے ہیں۔

 

مشترکہ خاندانی نظام میں محبت، تربیت، مدد اور برکت جیسے فوائد موجود ہیں۔ لیکن ساتھ ہی پرائیویسی کی کمی، انا کے مسئلے، غیر منصفانہ تقسیم اور گھریلو سیاست بھی ہیں۔ دوسری جانب الگ رہائش میں سکون، آزادی اور ہم آہنگی کے مواقع موجود ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ مالی بوجھ، بچوں کی تربیت کے چیلنجز اور والدین سے دوری بھی ایک بڑی حقیقت ہے۔

 

رائٹر نے نہ صرف مسائل اجاگر کئے ہیں بلکہ خوبصورتی سے حل بھی پیش کئے ہیں۔کہ اگر افراد میں برداشت ، کمیونیکیشن ہو، ذمہ داریاں بانٹی جائیں اور ایک دوسرے کی حدود کا احترام کیا جائے تو دونوں نظام کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ ہمیشہ رویّوں کا ہوتا ہے رہائش کا نہیں۔

 

مجموعی طور پر دونوں ڈرامے ہمارے معاشرتی رویّوں کی گہری عکاسی کرتے ہیں۔ پامال یہ سکھاتا ہے کہ نارسزم، ناشکری اور خود ترسی جیسے رویّے کسی بھی مضبوط رشتے کو ٹوٹنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ شوہر کی انا ہو یا بیوی کی شکایت پسندی دونوں رشتے کی بنیاد کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ جبکہ جمع تقسیم یہ پیغام دیتا ہے کہ مسائل کا حل الزام تراشی نہیں بلکہ سمجھداری، مکالمہ اور اعتدال ہے۔ گھر اسی وقت خوشگوار بنتے ہیں جب افراد اپنے کردار اور رویّوں کو بہتر بنانے کی کوشش کریں نہ کہ سارا بوجھ نظام یا حالات پر ڈال دیں۔

 

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرشادی شدہ کپل اور خاندان کے مسائل مختلف ہوتے ہیں۔ہم اپنے تجربات کی روشنی میں کسی اور کو مشورہ نہیں دے سکتے۔اس یے بہتر یہی ہے کہ میرج کونسلرز، کوچز اور مذہبی علماء سے رجوع کیا جائے۔اور گھر کو اکھاڑہ بنانے کی بجائے جائے سکون بنایا جائے تاکہ اہل خانہ بجائے ذہنی، نفسیاتی، جسمانی بیماریوں کا شکار ہونے اور معاشرے کے لیے باعث فساد بننے کے فعال شہری بن کر مثبت تعمیری سرگرمیوں کا حصہ بن سکیں۔

 

شادی دو کامل انسانوں کا نہیں دو ادھورے انسانوں کا رشتہ ہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی خوبیوں کو سراہنے، کمزوریوں کو برداشت کرنے، گفتگو کو جاری رکھنے اور اپنی انا پرستی رشتے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انسان صرف خامیاں دیکھتا ہے تو خوبیاں بھی چھپ جاتی ہیں اور معمولی مسائل بڑے طوفان بن جاتے ہیں۔ لیکن جب نیت ساتھ نبھانے کی ہو، رویّوں میں نرمی ہو اور دل میں شکرگزاری ہو، تو کوئی بھی رشتہ بکھرتا نہیں بلکہ مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ یہی پیغام نہ صرف ان ڈراموں کی روح ہے بلکہ حقیقی زندگی کی کامیابی کا بھی راز ہے۔

 

خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ گھریلو ماحول میں پائے جانے والے رویّے بھی تشدد کی ایک خاموش شکل ہو سکتے ہیں۔ جیسے ڈرامہ پامال میں نارسزم، الزام تراشی، جذباتی بلیک میلنگ اور ناشکری، اور جمع تقسیم میں گھر کے نظام اور رویّوں کی کشمکش،یہ سب ہمارے معاشرے میں خواتین کے روزمرہ تجربات سے جڑے ہیں۔

 

 تشدد ہمیشہ جسمانی نہیں ہوتا؛ اکثر جذباتی، ذہنی اور رویّوں کی سطح پر شروع ہوتا ہے، جو عورت کے اعتماد، سکون اور عزت نفس کو مجروح کرتا ہے۔ اس دن کا مقصد یہی یاد دلانا ہے کہ عورت کو محفوظ ماحول دینا صرف تشدد روکنے سے ممکن نہیں بلکہ گھر، خاندان اور معاشرتی رویّوں کو بہتر بنانے سے بھی وابستہ ہے۔ جب ہم شکرگزاری، مکالمہ، سمجھداری اور احترام کو اپنا لیں، تبھی گھروں میں محبت پروان چڑھتی ہے اور خواتین واقعی محفوظ اور بااختیار محسوس کرتی ہیں۔

تازہ ترین