حمیراعلیم
ایکسپریس چینل کا ڈرامہ' دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی' ایک منفرد موضوع پر بنا ہے۔ڈرامے کی کہانی محبت، قربانی، اور وقت کے ساتھ بدلتے انسانی رویّوں کے گرد گھومتی ہے۔ عموماً ہمارے ڈرامے محبت، رشتوں اور معاشرتی تنازعات کے گرد گھومتے ہیں۔
مگر "دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی" اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ انسانی ذہن کی بگڑتی ہوئی حالت اور اس سے جڑے جذباتی المیے، رشتوں کے احساسات کو نہایت نفاست اور ہمدردی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔اس ڈرامے کا موضوع ہے فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنیشیا۔
ہمارے رائٹرز اور پروڈیوسرز کو چاہیے کہ وہ مزید ایسے موضوعات کو اپنی تخلیقات کا حصہ بنائیں جن کا عوام شار ہیں:جیسے ذہنی صحت، بڑھاپے کے مسائل، معذور افراد کی زندگی، ڈپریشن، اور سماجی تنہائی۔ یہ سب مسائل ہمارے اردگرد موجود ہیں مگر ہماری کہانیوں میں ان کی جگہ کم ہے۔میڈیا صرف تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ سماج کی تربیت اور شعور کا ذریعہ بھی ہے۔ایسے ڈرامے نہ صرف ناظرین کا ذوق بہتر کرتے ہیں بلکہ علم و آگاہی اورمعاشرتی اصلاح کا ایک طاقتور ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
آئیے ذرا ڈیمنیشیا کے بارے میں جانتے یعنی۔اس بیماری میں انسان کی یادداشت، سوچنے سمجھنے، فیصلہ کرنے کی قوت اور روزمرہ زندگی کے کام سرانجام دینے کی اہلیت بتدریج کمزور پڑ جاتی ہے۔حتی کہ مریض کوحالیہ واقعات، اپنے قریبی لوگوں کے نام، یا روزمرہ چیزوں کا استعمال تک یاد نہیں رہتا۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا میں تقریباً پانچ کروڑ پچاس لاکھ افراد اس مرض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور ہر تین سیکنڈ میں ایک نیا مریض سامنے آتا ہے۔
اس کی مختلف اقسام ہیں جن میں سب سے عام الزائمر ہے۔الزائمر میں دماغ کے خلیات میں غیر معمولی مادے جمع ہو کر اعصابی نظام کو تباہ کرتے ہیں۔ دوسری قسم واسکولر ڈیمنیشیا ہے جو دماغ کو خون پہنچانے والی نالیوں کی رکاوٹ یا فالج سے پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح لیوی باڈی ڈیمنیشیا میں مریض کو یادداشت کے ساتھ بصری فریب اور جسمانی لرزش ہوتی ہے۔ فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنیشیا میں رویے اور زبان متاثر ہوتے ہیں جبکہ بعض مریضوں میں ایک سے زیادہ اقسام بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ اس بیماری کی بنیادی وجہ دماغی خلیات کی تباہی ہے۔
بڑھتی عمر سب سے بڑا خطرہ ہے۔ لیکن جینیاتی عوامل، ہائی بلڈ پریشر، فالج، دماغی چوٹ، ذیابیطس، موٹاپا، شراب یا منشیات کا استعمال، وٹامن بی 12 کی کمی اور طویل ذہنی دباؤ بھی اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔ڈیمنیشیا کی علامات آہستہ آہستہ بڑھتی ہیں۔ ابتدا میں مریض معمولی بھول چوک کا شکار ہوتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ یادداشت کمزور، بات چیت مشکل اور صلاحیتیں بھول جاتی ہیں یوں رویے میں تبدیلی آتی ہے۔
مریض وقت اور جگہ کی پہچان کھو دیتا ہے، چیزیں غلط جگہ رکھ دیتا ہے، لوگوں پر شک کرنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ سماجی طور پر الگ ہو جاتا ہے۔ آخری مراحل میں وہ بولنے، چلنے یا کھانے پینے کی صلاحیت تک کھو دیتا ہے۔
اس کا فی الحال کوئی مکمل علاج موجود نہیں ہے۔ تاہم دوائیں جیسے ڈونیپیزل، ریویاسٹگمین، گالینٹامین اور میمینٹائن بیماری کی پیش رفت کو سست کرتی ہیں۔ مختلف تھراپیز مثلاً ذہنی مشقیں، رویّے کی تربیت، حقیقت یاددہانی اور موسیقی کا علاج مریض کے رویے اور یادداشت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
طرز زندگی میں بہتری جیسے روزانہ ورزش، متوازن غذا، نیند کا باقاعدہ معمول، بلڈ پریشر اور شوگر کا کنٹرول بھی اہم ہیں۔ سب سے زیادہ اثر خلوصِ دل سے نگہداشت کا ہوتا ہے، کیونکہ مریض کے لیے محبت، صبر اور عزت نفس کا احساس کسی دوا سے کم نہیں۔اس لیے ایسے مریض کے لواحقین پر ذمے داری بڑھ جاتی ہے ۔
ماہرین کے مطابق ابتدائی تشخیص اور بروقت علاج سے بیماری کی رفتار کو سست کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کہتی ہیں کہ خاندان کا جذباتی سہارا مریض کے لیے سب سے مؤثر علاج ہے۔ پروفیسر شکیل احمد کے مطابق ذہنی مشقیں الزائمر کے آغاز کو موخر کر سکتی ہیں۔جبکہ گیلانی ہاسپٹل کے ماہر نفسیات ڈاکٹر انعام شبیر کا کہنا ہے کہ نفسیاتی معاونت مریض اور اس کے اہلِ خانہ دونوں کے لیے ضروری ہے۔
یہ بیماری نہ صرف مریض بلکہ پورے خاندان کو متاثر کرتی ہے۔ مریض خوف، افسردگی اور بے بسی کا شکار ہوتا ہے جبکہ خاندان مالی اور جذباتی دباؤ میں آجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض پر خاموشی اور شرم غالب ہے اس لیے اگرکوئی ماہر نفسیات کے پاس جائے تو اسے اکثر پاگل سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے کو بدلنے کے لیے میڈیا اور تعلیمی اداروں کو آگاہی مہمات کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ڈیمنیشیا کو مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا مگر صحت مند طرز زندگی خطرہ کم کر سکتی ہے۔ ذہنی سرگرمیاں، جسمانی ورزش، سماجی روابط، متوازن غذا اور اچھی نیند دماغ کو فعال رکھتے ہیں۔ یہ صرف ایک بیماری نہیں بلکہ انسان کی زندگی اور رشتوں کے احساس کا زوال ہے۔
یہ ایک طویل مگر قابلِ سمجھ جدوجہد ہے جسے محبت، ہمدردی اور بروقت علاج کے ذریعے آسان بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں مریض کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیےکیونکہ محبت ہمیشہ یادداشت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔