ایزل خان
گزشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک خبر بڑی تیزی سے وائرل ہوئی کہ ڈاکٹر نبیحہ علی خان نے دوسری شادی کر لی۔ یہ خبر مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور پیجز پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب یہ خبر میرے سامنے آئی اور میں نے ان کی نکاح کی تقریبات کی کئی ویڈیوز مکمل دیکھ لیں تو سچ میں مجھے خوشی ہوئی۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر نبیحہ علی خان کی نکاح کی تقریبات میں کئی سوشل میڈیا اینکرز پرسن، یوٹیوبرز اور شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی تھی۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر نبیحہ علی خان کی شادی حارث کھوکر سے ہوئی ہے اور ان کا نکاح مولانا طارق جمیل نے پڑھایا ہے، اور نکاح کی تقریبات بھی مولانا طارق جمیل کے گھر میں ہوئی تھیں۔
جب میں نے تبصرے دیکھے تو کئی صارفین نے ڈاکٹر نبیحہ علی خان کو نئی زندگی کی مبارکباد اور نیک دعاؤں کی تمنا کی تھی، جبکہ دوسری طرف کئی صارفین نے طنز، مزاح اور تنقید بھی کی تھی۔ کئی صارفین نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحبہ دوسروں کی طلاقیں کرا کر خود شادی کر لی؟ تو کسی نے لکھا کہ 50 سال کی عمر میں شادی؟
کئی صارفین نے یہ بھی لکھا کہ اپنی عمر سے کم عمر نوجوان لڑکے سے شادی کر لی؟ مجھے حیرت ہے اس بات کی کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟ اگر ہیں تو ہم ہر چیز اور ہر کام میں دوغلا پن کیوں کرتے ہیں؟ کیوں ہماری باتیں اور عمل ایک جیسے نہیں ہوتے؟
ہم اسلام کے نام پر جذباتی تقریریں تو بہت شوق سے کرتے ہیں، لیکن اگر وہی اسلامی تعلیمات معاشرے میں کوئی مرد یا عورت سرانجام دے رہا ہو تو ہم اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ کیوں؟ دیکھیں، نکاح ایک شرعی عمل ہے اور ہم سب ایک اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اگر کوئی عورت کسی بھی عمر میں ناجائز تعلقات کے بجائے نکاح کو ترجیح دیتی ہے تو ہم سب پر لازم ہے کہ اس عورت کے اس عمل کو سراہا جائے نہ کہ اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔
دوسری بات یہ کہ کسی بھی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ فلاں عمر سے فلاں عمر تک عورت نکاح کر سکتی ہے اور اس کے بعد نہیں کرسکتی یا یہ جرم ہے۔ عمر کے ہر درجے پر مرد اور عورت دونوں کو عزت، تحفظ اور جذباتی سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ اگر کسی کو بھی کسی بھی عمر میں اپنا ہم فکر اور آئیڈیل انسان ملتا ہے تو اسے نکاح کرنا چاہیے، چاہے وہ بیس سال کی عمر میں ہو یا پچاس سال کی عمر میں۔
تیسری بات یہ کہ جن لوگوں نے ڈاکٹر نبیحہ علی خان اور ان کے شوہر کو عمر کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا، ان لوگوں سے میرا یہ سوال ہے کہ حضرت بی بی خدیجہؓ اور رسول اللہ ﷺ کا جب نکاح ہوا تھا تو اس وقت بی بی خدیجہؓ کی عمر چالیس سال اور رسول اللہ ﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔ کیا اس وقت بھی کسی نے تمسخر کیا تھا؟ نہیں؛ بلکہ وہ نکاح اسلام کی تاریخ میں سب سے زیادہ بابرکت شمار ہوتا ہے۔
اگر کوئی عورت بیوہ ہو جاتی ہے یا طلاق یافتہ ہو جاتی ہے تو اس عورت کا جینا بھی یہ معاشرہ حرام کر دیتا ہے۔ اگر کوئی عورت مجبوری کی وجہ سے غلط کاموں میں ملوث ہو جاتی ہے تو پھر بھی یہ معاشرہ کہتا ہے کہ عورتوں کا زمانہ ہے، عورتیں بگڑ گئی ہیں۔ اور اگر کوئی عورت نکاح کرنا چاہتی ہے تو کہتے ہیں کہ اس عمر میں شادی؟ دیکھیں، نکاح ہر انسان کی شخصی اور شرعی آزادی ہے۔ ہمیں ہر انسان کے ذاتی فیصلوں اور رائے کا احترام کرنا ہوگا۔ اگر کوئی عورت کسی بھی عمر یا حیثیت میں کسی کو بھی اپنا شریکِ حیات بنانا چاہتی ہے تو کسی کو بھی کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ طنز یا تمسخر کرے۔
ڈاکٹر نبیحہ علی خان ایک تعلیم یافتہ، باشعور اور خود مختار خاتون ہیں۔ اگر انہوں نے نکاح کا فیصلہ کیا ہے تو یہ ان کی ذہانت اور سمجھداری کی دلیل ہے، کیونکہ نکاح ایک سوشل کنٹریکٹ ہے اور اسلام میں سب سے پسندیدہ عمل ہے۔ جن لوگوں نے ڈاکٹر نبیحہ علی خان کے بارے میں منفی رائے دی ہے، یہ دراصل ان لوگوں کی اپنی تنگ نظری اور کمزوری کا اظہار ہے اور کچھ نہیں۔
آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ اگر ہم واقعی اسلام کے دعویدار ہیں تو ہمیں اسلام کا عملی جامہ بھی پہننا ہوگا۔ اگر کوئی اسلامی تعلیمات پر عمل کرتا ہے تو ہمیں اسے سراہنا چاہیے نہ کہ اس پر انگلی اٹھانی چاہیے۔ کیونکہ معاشرتی ترقی کا آغاز تب ممکن ہے جب ہم دوسروں کے ذاتی فیصلوں کے بجائے اپنے رویوں، باتوں اور عمل پر غور کریں۔
نکاح عبادت ہے، جرم نہیں۔ اس لیے گناہ کے بجائے نکاح کو عام کریں۔ نکاح کا عمر، رنگ یا حیثیت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی کی عمر زیادہ ہے، وہ بیوہ ہے یا طلاق یافتہ ہے، کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ وہ دوبارہ نکاح نہیں کرسکتی۔ خدارا اسے شرم قرار نہ دیں۔