خادم خان آفریدی
پاک افغان کشیدگی کے باعث طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن سمیت تمام سرحدی گزرگاہیں گذشتہ 35 روز سے ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں مزدور، تاجر، ڈرائیور اور مقامی کاروباری افراد شدید معاشی بحران کا شکار ہو گئے ہیں۔
گیارہ اور بارہ اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی سیکیورٹی چوکیوں پر حملے اور اس کے جواب میں پاکستانی کارروائیوں کے بعد حالات کشیدہ ہوچکے ہیں۔ سرحدی بندش کے باعث پاک افغان شاہراہ پر جمرود اور لنڈی کوتل میں مال بردار گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں جبکہ ڈرائیور شدید مشکلات میں مبتلا ہیں۔
لنڈی کوتل بازار کے صدر یاداللہ شینواری نے بتایا کہ طورخم گیٹ کی بندش سے مقامی تجارت تقریباً ختم ہوچکی ہے، پہلے ہر دکاندار کی روزانہ 30 ہزار روپے تک سیل ہوتی تھی، جو اب ایک سے دو ہزار روپے تک محدود ہو چکی ہے۔ علاقے کے زیادہ تر لوگ روزگار کے لیے طورخم جاتے تھے مگر سرحد کی بندش نے انہیں فاقہ کشی کے قریب پہنچا دیا ہے۔
طورخم مزدور یونین کے صدر ذاکر شینواری نے خبردار کیا کہ بندش نوجوانوں کو جرائم پیشہ گروہوں کی طرف دھکیل سکتی ہے، کیونکہ 1500 کارڈ ہولڈر مزدور براہ راست متاثر ہیں اور کل متاثرین کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی ہے، اس کے علاوہ ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ اور دیگر سروس سیکٹرز کے سینکڑوں ملازمین بھی بیروزگار ہو چکے ہیں۔
آل کسٹم کلیئرنس ایجنٹس کے صدر مجیب شینواری نے بتایا کہ طورخم میں کام کرنے والے 150 رجسٹرڈ دفاتر اور 800 سے زائد ایجنٹس بھی بندش سے متاثر ہوئے ہیں، اور پاکستان کی ایکسپورٹ میں یومیہ 1.5 سے 2 ملین ڈالر جبکہ امپورٹ میں یومیہ 550 ملین روپے سے زائد نقصان ہو رہا ہے۔
پہلے روزانہ 700 سے زائد گاڑیاں بارڈر سے گزرتی تھیں، اب ہزاروں لوڈ گاڑیاں پھنس چکی ہیں، جن میں پھل اور سبزیاں شامل ہیں، جس کے باعث پاکستان میں ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرحدی حکام کے مطابق طورخم کے ذریعے روزانہ 10 ہزار افراد اور 500 سے زائد گاڑیاں آتی جاتی تھیں، اب یہ سلسلہ مکمل رک چکا ہے۔
تاجر تنظیموں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی صنعتیں پہلے ہی بدامنی اور دہشتگردی سے متاثر ہیں، اور سرحدی تجارت کی بندش نے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جس کے باعث ہزاروں افراد بے روزگار ہونے کے خدشات میں مبتلا ہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے وفاقی حکومت سے افغان تعلقات بہتر بنانے اور قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
تاجر و مزدور رہنماؤں نے دونوں ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ سرحدی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرتے ہوئے طورخم سمیت تمام بارڈر گزرگاہیں فوری طور پر کھولی جائیں تاکہ معاشی بدحالی کا سلسلہ رُک سکے۔