حمیراعلیم
بحیثیت مسلمان ہم پر والدین کی خدمت ان کی کفالت اور اطاعت فرض ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جیسے اور بہت سے فضول قسم کے رسوم و رواج رائج ہیں ویسے ہی والدین سے بد سلوکی ان کی نافرمانی بھی رواج پا چکی ہے۔چنانچہ ہم اکثر خبروں میں اور سوشل میڈیا پر اولاد کو بوڑھے والدین پر جائیداد کی خاطر تشدد کرتے، انہیں دربدر کرتے اور بعض اوقات قتل کرتے بھی دیکھتے ہیں۔
ایسے میں قانون حرکت میں آیا اور لاہور ہائی کورٹ نے والدین کی مالی کفالت کے حوالے سے حکم جاری کیا ہے کہ بچے والدین کو ماہانہ رقم دینے کے پابند ہیں۔ اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو والدین ان پر مقدمہ کر سکتے ہیں۔اور بچوں کو ماہانہ رقم دینے کا حکم ہو سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ والدین “سیکشن 17-A” کے تحت بچوں سے maintenance کی درخواست کرسکتے ہیں اور بچوں کو اپنے والدین کو ماہانہ رقم ادا کرنا ہوگی۔
اس فیصلے کے مطابق والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مالی ضروریات کے لیے بچوں سے مطالبہ کریں اور قانونی چارہ جوئی کریں۔اگر بچے مالی طور پر استطاعت رکھتے ہیں تو والدین کی کفالت کےذمہ دار ہوں گے۔عدالت نے یہ بھی رعایت رکھی ہے کہ اگر بچے یا والدین کے حالات مختلف ہوں (مثلاً بچے کے پاس اپنے وسائل ہوں یا والدین کی کوئی آمدنی ہو) تو ذمہ داری کا معیار مختلف ہو سکتا ہے۔
فیملی کورٹ نے ’انٹرِم maintenance‘ کا تصور بھی اپنایا ہے، یعنی کیس کے دوران فوری امداد کی رقم طے کی جائے گی۔ اگرچہ پاکستان کے قانون میں یہ شق پہلے سے موجود تھی مگر عمل درآمد نہیں ہے۔
والدین کی طرف سے بچوں سے اخراجات طلب کرنا، اور بچوں کی طرف سے کفالت کرنا یہ تصور اسلامی شریعت سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ مگر پاکستان میں بزرگ والدین کی کفالت کے حوالے سے مخصوص بچوں کی قانونی ذمہ داری کا جامع وفاقی قانون ابھی مکمل وضاحت کے ساتھ سامنے نہیں آیا، بلکہ عدالتیں مختلف حوالوں سے ذمہ داریاں طے کر رہی ہیں۔
فیملی کورٹز کے قوانین، جیسے Family Courts Act, 1964، اور دیگر فیملی قانون سازی، بچوں اور والدین کی مالی ذمہ داریوں کی تفصیل بتاتی ہیں۔ مثلاً عدالت نے بزرگ والدین کی مالی ضروریات کے لیے بچوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ وہ ماہانہ ایک مخصوص رقم دے سکتے ہیں۔ اگر بچے یا والدین مالی طور پر خود کفیل ہیں تو ذمہ داری مختلف ہوسکتی ہے۔
مثلاً بچے اگر اپنی آمدنی سے خود کفیل ہوں یا والد کا مالی اختیار نہ ہو، تو عدالت نے ذمہ داری کے خد و خال بیان کیے ہیں۔ ایک مقدمے میں فیملی کورٹ نے حکم دیا کہ بچوں (جو کہ چار بھائی تھے) کو اپنی والدہ کو ماہانہ پانچ ہزار روپے دینا ہوں گے۔ اگرچہ یہ رقم مخصوص کیس کے لحاظ سے تھی۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے واضح کیا کہ والدین بچوں سے maintenance کے لیے قانونی طور پر رجوع کر سکتے ہیں۔
یہ حکم نامہ ظاہر کرتا ہے کہ بچوں کی مالی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ والدین کی دیکھ بھال، رہائش، طبی امداد، اور دیگر ضروریات کے لیے رقم فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
اگرچہ عدالت نے یہ حکم تو دے دیا ہے۔ مگر عملی سطح پر اس کا نفاذ کچھ مشکل دکھائی دیتا ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے نکاح نامے میں لکھی شرائط ، مہرو جائیداد وغیرہ کی ادائیگی فرض سمجھی جاتی ہے لیکن ادا کوئی نہیں کرتا۔عدالت سے رجوع کریں تو سالوں مقدمے بھگتنے پڑتے ہیں۔بعض اوقات والدین کو بچوں کی مالی حیثیت کا علم نہیں ہوتا، یا بچے آمدنی چھپاتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتی کارروائی میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔ بچے اگر بیرونِ ملک ہوں یا مالی وسائل کم ہوں، تو بھی مشکل ہوتی ہے۔عدالت نے اگرچہ حکمنامہ جاری کیا، مگر اس کی مکمل توسیع اور مانیٹرنگ کا نظام ابھی مضبوط نہیں۔
اکثر والدین خود کفیل ہوتے ہیں، یا خاندان کے اندر ہی معاملات طے ہو جاتے ہیں۔ جس سے قانونی کارروائی کم دیکھنے میں آتی ہے۔اس حکم سے خاندانوں میں کشیدگی پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ خاص طور پر اگر بچے والدین کے حقوق سے لاعلم ہوں یا اہل خانہ کے درمیان تعلقات کمزور ہوں۔
معاشرتی توقعات اور صنفی روایات بعض اوقات بچوں کی ذمہ داری کو محدود کرتی ہیں یا تنقید کا سامنا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اولاد اور بزرگ والدین کے تعلقات میں عدم تعاون کو رسوائی سمجھا جاتا ہے۔اس لیے اگر وہ مقدمہ کریں گے توشاید بچوں اور والدین کے تعلقات میں نارمل سطح پر عدم اعتماد پیدا ہو۔مسز گیلانی کے چار بچے ہیں۔تین شادی شدہ ایک کنوارہ۔وہ اپنے کنوارے بچے کے ساتھ رہتی ہیں ان کی بیس ہزار پنشن ہے۔
لیکن دوسرا بیٹا، بیرون ملک مقیم ہے، ان کو ماہانہ جیب خرچ بھیجتا ہے جسے وہ بیٹا لیتا ہے جس کے ساتھ وہ مقیم ہیں۔پنشن بھی اسی کے پاس جاتی ہے۔وہ چھوٹے چھوٹے اخراجات کے لیے رقم مانگنے پر مجبور ہیں۔نہ وہ شوہر کی جائیداد سے اپا حصہ مانگ سکتی ہیں نہ اپنی پنشن۔ایسے میں اگر وہ اس کنوارے بیٹے پر مقدمہ کریں گی تو وہ انہیں ذلیل کر کے گھر سے نکال دے گا۔انہیں کسی اولڈ ایج ہوم میں رہنا پڑے گا۔
اگرہم اپنے خاندانوں میں قرآن و سنت کی روح کے مطابق بچوں کو بچپن سے بزرگ والدین کی مالی و اخلاقی ضرورت کا شعور دیں اور معاشرتی سطح پر بچوں کی یہ تربیت کریں کہ والدین کی کفالت شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ تو اس طرح کے عدالتی احکامات کی نوبت ہی نہ آتی۔ چونکہ عملی طور پر بہت سے معاملات میں ذمہ داری نظرانداز ہوتی رہی ہے اس لیے عدالتیں مداخلت کر رہی ہیں۔
گھروں میں اس بات کا شعور بیدار ہونا چاہیے کہ والدین کی دیکھ بھال کا مطلب صرف مالی امداد نہیں بلکہ وقت، احترام، اور توجہ دینا بھی ہے۔اس فیصلے کو مزید واضح کرنے کے لیے وفاقی یا صوبائی سطح پر خصوصی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔تاکہ بزرگ والدین کی کفالت کے حوالے سے ضابطہ واضح ہو۔
عدالتی نظام میں اس حکم کی نگرانی، نفاذ، اور بچوں کی مالی صورتحال کی جانچ کے لیے موثر میکانزم بنائے جانے چاہئیں مثلاً آمدنی کا ریکارڈ، مالی وسائل کی جانچ، ماہانہ رقم کی نگرانی۔خاندانی ثالثی فنڈ، علماء اور سماجی کارکنان کے ذریعے بچوں اور والدین کے درمیان مالی تعاون پر بات چیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ قانونی کارروائی کو آخری حل سمجھا جائے، پہلے باہمی مشاورت کی جائے۔
والدین اور بچوں کے لیے مشاورتی سیشنز رکھے جائیں جن میں مالی منصوبہ بندی، وسائل کا استعمال، اولاد کی ذمہ داریوں کے شعور پر بات کی جائے۔میڈیا، مساجد اور اسکولوں میں بزرگ والدین کے حقوق و ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی مہم چلائی جائے۔بچوں کی مالی نااہلی یا عدم تعاون کے سماجی اثرات پر بات کی جائے تاکہ ذمہ داری کا شعور اُجاگر ہو۔
اس سے بزرگ والدین کے لیے عزت اور مالی تحفظ ممکن ہو سکتا ہے ۔اس حکم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ صرف اخلاقی تلقین کافی نہیں، بلکہ ایسے قانونی انتظامات بھی ضروری ہیں تاکہ وقتی طور پر ذمہ داری نبھانے کی بجاے والدین کی حیات میں ان کا خیال رکھا جائے۔
ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ والدین کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ آپا وقت، محنت، پیسہ سب اولاد پر اس آس میں لٹانے کی بجائے کہ وہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے گی کچھ پیسہ، جائیداد اپنے بڑھاپے کے لیے بچا اور چھپا کر رکھیں۔تاکہ آخری عمر میں خوار نہ ہوں۔اور اولاد کی تعلیم و تربیت بس اپنا فریضہ سمجھ کر کریں نہ کہ کسی امید کے تحت۔