ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
"کابل سے ڈاکٹر بننے آئی تھی، مگر اب کوئی شناخت نہیں رہی"، افغان طالبہ Home / عوام کی آواز /

"کابل سے ڈاکٹر بننے آئی تھی، مگر اب کوئی شناخت نہیں رہی"، افغان طالبہ

سپر ایڈمن - 11/11/2025 301

گلالئی امیری

 

پشاور کی ایک خاموش شام تھی۔ کھڑکی سے آتی ہلکی ہوا کمرے میں پھیل رہی تھی۔ شبکہ ایک پرانی کتاب پڑھ رہی تھی، مگر اس کی نظریں لفظوں پر نہیں بلکہ اپنے ماضی کی گلیوں میں بھٹک رہی تھیں ، ایک ایسا ماضی جو امیدوں، خوابوں اور خواہشوں سے بھرا ہوا تھا۔

 

دو سال پہلے جب شبکہ کابل یونیورسٹی کے میڈیکل فیکلٹی کے دوسرے سال میں داخل ہوئی تو وہ خود کو پہلے ہی ایک ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنے لگی تھی۔ وہ اکثر تصور کرتی کہ وہ مریضوں کا علاج کر رہی ہے، ان کے درد کو کم کر رہی ہے۔ مگر وہ خواب کبھی پورا نہ ہو سکا۔

 

اسے آج بھی وہ دن یاد ہے جب اس کے والد نے کہا تھ،ا"شبکہ، ہمیں پاکستان جانا ہوگا، یہاں اب کوئی مستقبل نہیں رہا۔"

 

بہت سی مشکلات کے بعد وہ پاکستان کی ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئی۔ یہاں فیسیں بہت زیادہ تھیں، مگر اس کا حوصلہ اس سے بھی زیادہ تھا۔ ہر رات وہ خود سے کہتی تھی

"میں ڈاکٹر بنوں گی، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ میں ہار نہیں مانوں گی"۔  مگر زندگی ہمیشہ انسان کے ارادوں پر نہیں چلتی۔

 

جب افغان پناہ گزینوں کی جبری واپسی شروع ہوئی تو شبکہ کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس کے خواب، تعلیم، اور گھر کا سکون ، سب بکھر گیا۔ اس کے کچھ رشتہ دار گرفتار ہوئے، کچھ کو واپس افغانستان بھیج دیا گیا، جبکہ شبکہ چند عزیزوں کے ساتھ پشاور میں رہ گئی۔

 

اب ہر صبح سورج کی روشنی بھی اس کے لیے اجنبی لگتی ہے۔ وہ نہ یونیورسٹی جا سکتی ہے، نہ آزادانہ گھوم سکتی ہے۔ کئی بار پولیس چوکیوں پر روکی گئی، اور صرف پاکستانی ساتھیوں کی مدد سے بچ نکلی، مگر وہ بھی ہمیشہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔

 

شبکہ اب تنہا ہے ، ایک ایسے شہر میں جہاں وہ نہ آواز اٹھا سکتی ہے، نہ کسی سے فریاد۔

 

کبھی کبھار وہ اپنی ماں کی طرف دیکھتی ہے، جن کی آنکھیں ہمیشہ آنسوؤں سے بھیگی رہتی ہیں، اور خود سے پوچھتی ہے،"یہ سب کب تک چلے گا؟ ہمارا کیا بنے گا؟"

 

شبکہ آہستہ سے کہتی ہے،"میری زندگی کے سب سے قیمتی سال ؛ جوانی، تعلیم،  ضائع ہو گئے۔ فکر و پریشانی سے بال سفید ہو گئے۔ میں وقت سے پہلے بوڑھی ہو گئی ہوں۔ میرے خواب ادھورے رہ گئے، اور زندگی سکون سے خالی ہو گئی۔" 

 

پھر لرزتی آواز میں کہتی ہے،"کبھی کبھی دل چاہتا ہے سب ختم کر دوں، مگر ماں کا چہرہ دیکھ کر رک جاتی ہوں۔ بس ایک ڈر ہے کہ کہیں کسی دن مایوسی میں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لوں۔" 

 

شبکہ کی کہانی صرف ایک لڑکی کی نہیں، یہ ان ہزاروں افغان نوجوانوں کی آواز ہے جو بے یقینی اور جلاوطنی کے طوفان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ ان دلوں کی پکار ہے جنہیں کوئی نہیں سنتا۔

 

شبکہ کہتی ہے،"میرے خواب ادھورے رہ گئے۔ شاید اب کبھی سفید کوٹ نہ پہن سکوں، اور نہ ہی کسی درد مند انسان کے زخموں پر مرہم رکھ سکوں۔"

تازہ ترین