محمد سلمان
نیشنل بینک آف پاکستان کے ریٹائرڈ پینشنرز، جن کی عمریں 65 سے 75 سال کے درمیان ہیں، اپنے واجب الادا حقوق کے حصول کے لیے ایک بار پھر سراپا احتجاج بن گئے۔ بزرگ پینشنرز کا کہنا ہے کہ بینک کی اعلیٰ انتظامیہ کی ہٹ دھرمی نے انہیں گھر کے آرام کے بجائے سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ملک بھر میں نیشنل بینک کے تقریباً 10 ہزار ریٹائرڈ ملازمین ہر سال وفاقی بجٹ میں پینشن میں ہونے والے اضافے سے محروم رہتے ہیں، حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعدد بار ان کے حق میں فیصلے سنائے ہیں۔
پینشنرز کے نمائندہ افتخار خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ "جب بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ ہوتا ہے تو ہمارا بھی وہی حق بنتا ہے، لیکن نیشنل بینک کی انتظامیہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہمیں اس سے محروم رکھتی ہے۔" انہوں نے بتایا کہ 2017 میں کیس سپریم کورٹ میں جیتنے کے باوجود بینک نے ریویو پٹیشن دائر کی، جس کا فیصلہ 2024 میں دوبارہ پینشنرز کے حق میں آیا، مگر انتظامیہ تاحال عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے گریزاں ہے۔
ایک اور بزرگ پینشنر نصیر خان کے مطابق، "بینک کے 11 ہزار ریٹائرڈ ملازمین میں سے صرف ایک ہزار کو من پسند بنیادوں پر نوازا گیا ہے، جبکہ باقیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ نیشنل بینک پسند و ناپسند کی پالیسی پر چل رہا ہے۔" انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ ہونے کے باعث انہوں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے، لیکن نو ماہ گزرنے کے باوجود سماعت کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔
پینشنرز کے ایک اور نمائندے فرمان علی نے بتایا کہ ان کا وفد وفاقی وزیر خزانہ، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور دیگر متعلقہ حکام سے متعدد ملاقاتیں کر چکا ہے، مگر تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ نیشنل بینک میں اقرباپروری عروج پر ہے اور کوئی بھی اعلیٰ عہدیدار صدر بینک سے یہ نہیں پوچھتا کہ آخر سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بزرگ پینشنرز کو ان کا جائز حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔
ریٹائرڈ ملازمین نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر فی الفور عمل درآمد کیا جائے تاکہ عمر رسیدہ پینشنرز کو انصاف اور معاشی سکون میسر آ سکے۔