ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
افغان مہاجرین کی واپسی، خواتین اور کاروباری شخصیات کا غیر یقینی مستقبل Home / بین الاقوامی,عوام کی آواز,قومی /

افغان مہاجرین کی واپسی، خواتین اور کاروباری شخصیات کا غیر یقینی مستقبل

سپر ایڈمن - 06/11/2025 617
افغان مہاجرین کی واپسی، خواتین اور کاروباری شخصیات کا غیر یقینی مستقبل

خولہ زرافشاں  

 

جب کوئی انسان اپنا ملک چھوڑتا ہے تو وہ صرف زمین نہیں بلکہ اپنی زندگی کی ہزاروں یادیں اور خوبصورت لمحات پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں کئی سالوں سے مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کا مرحلہ اب ایک نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور بدلتے ہوئے حالات کے باعث افغان مہاجرین کو وطن واپس جانے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

 

اگر ان مہاجرین کے حالات کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مسائل نہ صرف شدید ہیں بلکہ ان کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے۔ واپسی کے اثرات سب سے زیادہ خواتین پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اگرچہ مردوں کی واپسی بھی آسان نہیں، تاہم وہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ خود مختار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والی کئی افغان خواتین یہاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں یا ملازمت سے وابستہ تھیں، جنہیں اب مشکلات کا سامنا ہے۔

 

خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے یہ مرحلہ نہایت کٹھن ہے۔ ہزاروں افغان طالبات جو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھیں، اب افغانستان جا کر اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہیں، جہاں طالبان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد ہیں۔

 

پاکستان میں کاروبار کرنے والے افغان شہریوں کے لیے بھی واپسی ایک بڑا چیلنج ہے۔ جن افراد نے برسوں کی محنت اور سرمایہ کاری سے کاروبار قائم کئے، ان کے لیے افغانستان واپسی اپنے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔ ایسے کاروباروں کی بندش نہ صرف ان خاندانوں کے لیے نقصان دہ ہوگی بلکہ پاکستان کی معیشت پر بھی اثر ڈالے گی، کیونکہ ان کاروباروں سے وابستہ ہزاروں پاکستانی مزدور روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔

 

مردان کی میڈیکل طالبہ فریحہ کہتی ہیں: "میں افغانستان جا کر تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔ میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کی ہے، اپنے خواب کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتی۔"

 

گل مینہ، جو حاملہ ہیں، کہتی ہیں: "میرے حمل کے آخری مہینے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ افغانستان میں وہ طبی سہولت نہیں ملے گی جو یہاں حاصل ہے۔ اگر وہاں میرے ساتھ کچھ ہوگیا تو میں کیا کروں گی؟"

 

کاروباری خاتون رقیہ کا کہنا ہے: "میں نے چار سال کی محنت سے خواتین کے استعمال کی اشیاء کی دکان بنائی ہے۔ اگر چلی گئی تو میری ساری جمع پونجی ختم ہو جائے گی۔ افغانستان میں تو خواتین کاروبار نہیں کر سکتیں"۔

 

مہاجرین کی واپسی ایک قومی فیصلہ ضرور ہے، مگر یہ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر بچے، خواتین اور بیمار افراد ہو رہے ہیں۔ اگر ان کی آواز نہ سنی گئی تو یہ بحران سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔

 

یو این ایچ سی آر کے مطابق اس وقت پاکستان میں 13 لاکھ پی او آر کارڈ ہولڈرز، 8 لاکھ اے سی سی کارڈ ہولڈرز اور تقریباً 2 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان موجود ہیں۔

 

اور پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے طورخم بارڈر مسلسل چھٹے روز بھی کھلا ہے۔ سرحدی حکام کے مطابق گزشتہ پانچ دنوں کے دوران 29 ہزار 126 افغان مرد، خواتین اور بچے پاکستان سے افغانستان واپس جا چکے ہیں۔

 

پاکستانی پالیسی سازوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عوام کو چاہیے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کو صرف انتظامی نہیں بلکہ انسانی المیہ سمجھ کر حل کریں، خصوصاً خواتین اور بچوں کے لیے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ان مہاجرین کے خدشات اور مشکلات کا ازالہ صرف حکومت کا نہیں، بلکہ ہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے۔

تازہ ترین