علی افضل
ضلع کرم کو پشاور سے ملانے والی مرکزی شاہراہ ایک سال سے آمد و رفت کے لیے بند ہے، جس کے باعث عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ شاہراہ کی بندش سے نہ صرف اشیائے خوردونوش اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے بلکہ مریضوں کی جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران ضلع کرم میں دہشتگردی کے مختلف واقعات میں 500 سے زائد افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔ دہشتگردی کے تازہ واقعات کے بعد متبادل راستے بھی بند ہوگئے ہیں، جس سے عوام کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
ضلع کرم سے رکن قومی اسمبلی اور مجلس وحدت المسلمین کے پارلیمانی لیڈر انجینئر حمید حسین نے کہا کہ بدامنی کے باعث عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے قیام امن کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نظر نہیں آ رہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کوآرڈینیٹر عظمت علی زئی کے مطابق راستوں کی بندش اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث 200 سے زائد افراد، جن میں بچے بھی شامل ہیں، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے ضلع کرم کے لوگوں کو خوراک اور دوا دونوں سے محروم کردیا ہے۔
عظمت علی زئی نے مزید بتایا کہ گزشتہ تین دنوں کے دوران اپر اور لوئر کرم میں دہشتگردی کے واقعات میں چار افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جو علاقے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
تنظیم تحفظ ملت کے رہنما مسرت بنگش نے کہا کہ صرف کرم ہی نہیں بلکہ پشاور، اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی کرم سے تعلق رکھنے والے افراد کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو انسانیت سوز اور افسوسناک عمل ہے۔
طوری بنگش قبائل کے رہنما حاجی ضامن حسین نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر آمد و رفت کے راستوں کو محفوظ بنائے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
انہوں نے کہا کہ “ضلع کرم کے لوگ نہ اپنے علاقے میں محفوظ ہیں، نہ پاکستان کے دیگر شہروں میں، جبکہ افغان سرحد سے بھی بار بار حملے ہورہے ہیں، جس کے باعث سرحد بند ہے اور عوام دوہرے خطرات میں گھر چکے ہیں۔”