بشر یٰ محسود
سب سے پہلی بات یہ کہ تمہیں "صرف بیوی نہیں، انسان بھی رہنا ہے!" کتنی ہی عورتیں ایسی ہیں جو اچھی بیوی بننے کے چکر میں اپنی اصل شخصیت کھو بیٹھتی ہیں۔ وہ ہر وقت دوسروں کی ضروریات پوری کرتی ہیں ، شوہر کا ناشتہ، بچوں کا ہوم ورک، سسرال کے کام، خاندان کی خوشیاں ، مگر ان سب میں وہ خود کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ کبھی وقت نہیں ملتا، کبھی اجازت نہیں ملتی، کبھی ضمیر چپ نہیں ہونے دیتا، اور کبھی معاشرہ کہتا ہے: "بیوی ہو، برداشت کرو، قربانی دو، یہی نیکی ہے۔"
مگر سوال یہ ہے: اگر بیوی بننے کے چکر میں تم عورت ہی نہ رہو، تو کیا یہ انصاف ہے؟ یاد رکھو، عدم نگہداشت کا مطلب صرف اپنا خیال نہ رکھنا نہیں، بلکہ یہ ایک خاموش بیماری ہے جو آہستہ آہستہ عورت کے جذبات کو مار دیتی ہے، خود اعتمادی کو مٹا دیتی ہے، روحانی تعلق کو کمزور کر دیتی ہے اور بعض اوقات ذہنی صحت کی خرابی تک لے جاتی ہے۔ ایسی عورتیں اکثر کہتی ہیں: "پتہ نہیں میں خوش کیوں نہیں ہوں؟ میری کوئی سنتا ہی نہیں، میری زندگی میں میں کہاں ہوں؟"
یہ دراصل ایک ایسی حالت ہے جب کوئی شخص، خصوصاً عورت، اپنی بنیادی ذاتی، صحت یا رہائشی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ خود کی عدم نگہداشت کی علامات میں ذاتی صفائی سے غفلت، نہانا، برش کرنا، کپڑے بدلنا ترک کر دینا، صحت کی دیکھ بھال نہ کرنا، ڈاکٹر کے پاس نہ جانا یا ضروری دوائیاں چھوڑ دینا شامل ہے۔ گھر میں گندگی، سامان کا ڈھیر، یا کھانے پینے کی چیزوں کی خرابی بھی اسی عدم توجہ کی علامت ہے۔
ایسی عورتیں خود کو سب سے الگ تھلگ کر لیتی ہیں، دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ خاموش چیخیں دراصل عدم نگہداشت کی علامات ہیں، جب عورت ہر کسی کا خیال رکھتی ہے، سوائے اپنے آپ کے۔
نفسیاتی نقصان یہ ہوتا ہے کہ "تم تھک گئی ہوتی ہو مگر کہہ نہیں سکتی۔" عدم نگہداشت کا سب سے پہلا اثر عورت کی ذہنی تندرستی پر پڑتا ہے۔ ہر وقت دوسروں کی منظوری تلاش کرنا، اپنی ضروریات کو نظر انداز کرنا، ہر خوشی کو مؤخر کرتے جانا، اور احساس جرم کا شکار رہنا کہ "اگر میں نے کچھ اپنے لیے کیا تو یہ خودغرضی ہے" ، یہ تمام علامات ڈپریشن، اینگزائٹی اور دائمی اداسی کی طرف لے جاتی ہیں۔ ایک تھکی ہوئی روح نہ اچھی بیوی بن سکتی ہے، نہ اچھی ماں، نہ اچھی بندہ خدا۔
روحانی نقصان بھی اتنا ہی گہرا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَلَا تَقْتُلُوٓا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمً"
(سورۃ النساء، آیت 29)
"نہ اپنے آپ کو ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔"
یہ آیت صرف جسمانی خودکشی سے نہیں روکتی بلکہ جذباتی اور نفسیاتی خود کو مٹانے سے بھی منع کرتی ہے، جیسے حد سے زیادہ برداشت، اپنی ضروریات کو قربان کرنا، یا مسلسل خاموش تکلیف سہنا۔ عورت اللہ کی امانت ہے، خود کو مٹانے کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے توازن کے لیے پیدا کی گئی ہے۔
اسلام نے عورت کو قربانی کی مشین نہیں بنایا بلکہ فرمایا: "نفس کا بھی حق ہے۔"
نماز، دعا، خلوت، سوچنے کا وقت، یہ سب تمہاری روح کا رزق ہیں۔ مگر جب تم خود کو اتنا نظر انداز کر دو کہ عبادت بھی بوجھ لگنے لگے، تو یہ صرف دینی کمزوری نہیں بلکہ عدم نگہداشت کی علامت ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ اچھی بیوی بنو مگر خود سے بری مت بنو۔ روزانہ خود کے لیے تھوڑا وقت نکالو، صرف 15 منٹ دعا، خاموشی یا خود سے بات کے لیے۔ اپنی شناخت یاد رکھو: تم بیوی ہو مگر صرف بیوی نہیں۔ تمہاری اپنی سوچ، خواب، اور عبادت بھی ہے۔
حد مقرر کرو ، ہر کسی کی مدد تمہارا فرض نہیں، اور نہ جسمانی یا جذباتی قربانی ہمیشہ لازم ہے۔ شوہر سے بات کرو، اپنی تھکن چھپاؤ مت۔ اپنے جذبات کا اظہار کرنا کمزوری نہیں بلکہ حکمت ہے۔
اللہ سے رشتہ بحال کرو، وہی رب تمہارا رازق اور ہمدرد ہے۔ یاد رکھو، جو عورت خود کو بھول جاتی ہے، وہ آہستہ آہستہ سب کے لیے غیر ضروری بن جاتی ہے۔ محبت تبھی پھلتی ہے جب دل خالی نہیں، بھرا ہوا ہو ، خود سے، اللہ سے، اور امید سے۔
عدم نگہداشت کی وجوہات میں ذہنی بیماریاں (ڈپریشن، ڈیمنشیا، شیزوفرینیا، OCD)، جسمانی معذوری، ادھیڑ عمری، ادویات کا غلط استعمال، منشیات، اور معاشرتی تنہائی شامل ہیں۔ اس رویے سے صحت کے سنگین مسائل، حادثات، حتیٰ کہ قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر آپ کو لگے کہ کوئی خود کو نظر انداز کر رہا ہے تو نرمی سے بات کریں، ان کی ضروریات سمجھیں اور مدد کے لیے حوصلہ دیں۔ بعض صورتوں میں سماجی بہبود کے اداروں سے رابطہ ضروری ہوتا ہے۔
پاکستان اور جنوبی ایشیا میں اس موضوع پر مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں، کیونکہ یہ ایک خفیہ مسئلہ ہے۔ اکثر خواتین مدد کے لیے رپورٹ نہیں کرتیں۔ تاہم مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ زیادہ تر بوڑھی خواتین میں پایا جاتا ہے ، خاص طور پر وہ جو بیوہ، تنہا یا معاشی طور پر کمزور ہوں۔
خاندانی نظام اگرچہ کچھ تحفظ فراہم کرتا ہے، مگر بیوگی، غربت، اور کم خواندگی جیسے عوامل خواتین میں خود کی عدم نگہداشت کے خطرات بڑھا دیتے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر پاکستان میں بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے — خاص طور پر بزرگ اور شادی شدہ خواتین کے حوالے سے، جو سب کے لیے سب کچھ بننے کی کوشش میں خود سے خالی ہو جاتی ہیں۔