سعدیہ بی بی
میں اکثر سوچتی ہوں کہ انسان کی اصل پہچان کیا ہے؟ شاید وہ چیز جس پر ہم سب سے زیادہ فخر کرتے ہیں، اپنی شناخت۔ جیسے درخت اپنی جڑوں کے بغیر کچھ نہیں، ویسے ہی ہم اپنی پہچان کے بغیر ادھورے ہیں۔ اگر کسی شخص کے پاس اپنی قومی یا قانونی پہچان نہ ہو تو وہ معاشرے میں ایک بے نام سا فرد بن کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں یہی پہچان شناختی کارڈ کہلاتی ہے۔
بظاہر یہ ایک پلاسٹک کا کارڈ ہے، مگر حقیقت میں یہ ہمارے وجود، ہمارے حق، اور ہماری ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ یہ کارڈ ہمیں یہ احساس دلاتاہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور یہ ہماری ایک پہچان ہے۔
چند دن پہلے میں صدر مال روڈ کی طرف اپنی ایک دوست سے ملنے جا رہی تھی تو میں نے وہاں کی شٹل (بس کا نام ہے جو صرف کینٹ کے ایریا میں پائی جاتی ہیں) میں سفر کیا۔ بس چلی ہی تھی کہ ایک چیک پوسٹ پر اہلکاروں نے بس کو روک لیا۔ سب مسافروں سے شناختی کارڈ دکھانے کو کہا گیا۔ میں نے فوراً اپنا کارڈ نکالا۔ کارڈ دکھاتے ہوئے دل کے اندر ایک عجیب سا فخر تھا۔ یہ احساس کہ میرے پاس میری پہچان ہے، میرا ملک مجھے تسلیم کرتا ہے۔ پھر دل میں یہ خیال آیا، اگر یہ کارڈ نہ ہوتا تو؟
لیکن اسی وقت میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا۔ کچھ کی عمر پچیس سے تیس سال کے درمیان تھی۔ اہلکار نے وجہ پوچھی تو وہ ہنس کر بولے، "بس وقت نہیں ملا بنوانے کا۔" مجھے یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ ہم اپنی مصروف زندگی میں اتنی ضروری بات کو کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں؟
زندگی کے ہر معاملے میں یہ کارڈ ہمارے ساتھ ہوتا ہے، چاہے بینک اکاؤنٹ کھلوانا ہو، جائیداد خریدنی ہو، عدالت میں جانا ہو، پولیس اسٹیشن میں کوئی کارروائی کرنی ہو، ی پاسپورٹ بنوانا ہو یا صرف ایک سم لینی ہو۔ ہر جگہ یہی سوال ہوتا ہے، "آپ کا شناختی کارڈ نمبر کیا ہے؟"
شناختی کارڈ ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم انتخابات میں ووٹ ڈال سکیں۔ ووٹ دینا نہ صرف حق ہے بلکہ ایک قومی ذمہ داری بھی۔ بعض اوقات ہمارے پاس اپنی پہچان ہی نہیں ہوتی اورہم شکایت کرتے ہیں کہ ملک کے فیصلے عوام کی مرضی سے نہیں ہوتے، جس کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں، وہ اپنے ملک کے فیصلوں میں کبھی حصہ لے ہی نہیں سکتا۔
اگر ہم مالی معاملات دیکھیں تو چاہے بینک ہو، موبائل اکاؤنٹ ہو یا کوئی امدادی پروگرام، ہر جگہ شناختی کارڈ ضروری ہے۔ اگر یہ کارڈ نہیں تو آپ اپنے جائز حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ، امتحان، نوکری، ڈرائیونگ لائسنس، حتیٰ کہ سیم کارڈ لینا ہو، سب کے لیے یہ ایک لازمی دستاویز ہے۔
مجھے اکثر حیرت ہوتی ہے کہ ہم ایک موبائل فون یا نیا لباس خریدنے کے لیے تو گھنٹوں لائن میں لگ جاتے ہیں، لیکن اپنی پہچان بنوانے کے لیے وقت نہیں نکالتے۔ اگر کسی انسان کے پاس شناختی کارڈ نہیں، تو وہ ایک طرح سے اپنی موجودگی کو خود محدود کر لیتا ہے۔
یہ کارڈ صرف کاغذ کا نہیں، بلکہ انسان کو یہ اطمینان دیتا ہے کہ اگر کچھ ہو جائے تو وہ اپنی پہچان دکھا سکتا ہے۔ انسان کو اعتماد ہوتا ہے کہ اگر کبھی کوئی مسئلہ ہوا، تو وہ اپنی پہچان دکھا سکتا ہے، اپنی بات ثابت کر سکتا ہے۔ جس کے پاس شناخت نہیں، وہ خود کو کمزور محسوس کرتا ہے۔ وہ اگراچھا کام بھی کرتا ہے لیکن راستہ غلط چنتا ہے۔ اُسے چھپ چھپ کر جینا پڑتا ہے۔
خواتین کے لیے تو یہ اور بھی ضروری ہے۔ آج بھی کئی عورتیں کہتی ہیں، "شوہر اجازت نہیں دیتے کارڈ بنوانے کی۔" لیکن یہی کارڈ ان کے لیے خودمختاری کا دروازہ کھولتا ہے۔ اگر خواتین کے پاس اپنی شناخت ہو تو وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتی ہیں، امدادی پروگراموں یا سرکاری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
اٹھارہ سال کا ہونا صرف عمر کا بڑھنا نہیں، بلکہ ذمہ داری کا آغاز ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد ہر نوجوان کو چاہیے کہ فوراً یہ کارڈ بنوائے۔ بغیر اس کے وہ کسی امتحان، ملازمت یا سکالرشپ کے لیے اہل نہیں ہوتا۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں آج بھی کئی نوجوان اپنی پہچان حاصل کرنے میں لاپرواہی برتتے ہیں۔ آج کل عمر اٹھارہ سے کافی اوپر چلی جاتی ہے لیکن عوام کے پاس کارڈ بنانے کا وقت نہیں ہوتا۔
اب نادرا نے کارڈ بنوانے کا طریقہ کافی آسان کر دیا ہے، جو واقعی سہولت کی بات ہے۔ پورے ملک میں دفاتر قائم ہیں۔ آن لائن فارم بھی موجود ہیں۔ چند ضروری کاغذات دیں، فیس جمع کریں، اور چند دنوں میں کارڈ تیار ہو جاتا ہے۔ اگر کارڈ گم ہو جائے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، نادرا کو اطلاع دیں، نیا کارڈ بن جاتا ہے۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر کبھی میرا شناختی کارڈ نہ ہو تو شاید میں خود کو ادھورا محسوس کروں۔ کیونکہ یہ صرف ایک کارڈ نہیں، یہ میری پہچان، میری شناخت، اور میرے وجود کا ثبوت ہے۔ آخر میں بس اتنا کہنا ہے کہ اگر آپ کے پاس شناختی کارڈ نہیں تو آج ہی وقت نکالیں۔ اپنی پہچان حاصل کریں۔ یہ کارڈ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اس ملک کے ذمہ دار شہری ہیں، اور ہمیں اپنی پہچان پر فخر کرنا چاہیے۔