خادم خان آفریدی
خیبر، پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم گیٹ کی بندش کے باعث افغانستان میں زیرِ تعلیم سینکڑوں پاکستانی میڈیکل طلبہ شدید پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اگر سرحدی راستہ جلد نہ کھولا گیا تو ان کا تعلیمی سال ضائع ہونے کے ساتھ مستقبل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
متاثرہ طلبہ کے مطابق وہ افغانستان کی مختلف میڈیکل یونیورسٹیوں، خصوصاً جلال آباد، کابل اور قندھار میں زیرِ تعلیم ہیں، تاہم افغانستان مین زیر تعلیم سٹودنٹ گل شاد آفریدی کا کہنا ہے کہ طورخم گیٹ کی بندش کے باعث وہ کلاسز اور امتحانات میں شرکت سے محروم ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ چھٹیوں کے دوران پاکستان آئے تھے، لیکن اب واپسی ممکن نہیں رہی۔
والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کی تعلیم پر لاکھوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، اور اب گیٹ کی مسلسل بندش سے ان کی تمام محنت اور سرمایہ خطرے میں ہے۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ تعلیمی مقاصد کے لیے خصوصی اجازت نامہ جاری کیا جائے تاکہ طلبہ اپنی تعلیم کا تسلسل برقرار رکھ سکیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سرحدی کشیدگی کے اثرات اب صرف تجارت تک محدود نہیں رہے، بلکہ تعلیم، صحت اور سماجی تعلقات پر بھی منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو انسانی بنیادوں پر طلبہ کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں تاکہ نوجوان نسل کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔