ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی سے قبائلی افراد کی کونسی امیدیں وابستہ ہیں؟ Home / بلاگز,عوام کی آواز /

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی سے قبائلی افراد کی کونسی امیدیں وابستہ ہیں؟

نازیہ - 29/10/2025 37
  وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی  سے قبائلی افراد کی کونسی امیدیں وابستہ ہیں؟

نازیہ

 

بحیثیت ایک قبائلی جیسے مجھے معلوم ہوا کہ خیبر پختونخوا کے حالیہ   وزیراعلیٰ جن کا تعلق قبائلی ضلع خیبر سے ہے،   وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئیں تو ایک دم سے دل میں خوشی اور امید کی لہر دوڑ گئی کہ شاید اب کی بار ہم قبائلیوں کا نصیب بدل جائیں۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ جب ہم کسی اپنے یا اپنے علاقے کے کسی بھی شخص کو کہی دیکھتے ہیں تو دل ویسے ہی خوش ہو جاتا ہے اور ایک اپنائیت سی محسوس ہوتی ہے۔ 

 

جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ قبائلی اضلاع کو 1947 سے لے کر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ قبائلی اضلاع کو وفاق کے تحت چلایا جاتا تھا مگر جب قبائلیوں کی برداشت ختم ہوئی تو انہوں نے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے لیے جدوجہد شروع کی تاکہ ان کو بھی ایک صوبے کی طرح وسائل و فوائد سے نوازہ جائیں اور نوازیں بھی کیوں نہ کیونکہ ہم قبائلی بھی تو پاکستانی ہے اور اس پاکستان کا حصہ ہے۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا جس سے لوگوں کی امیدیں پیدا ہونا شروع ہوئی مگر انضمام کے بعد بھی وہی بد امنی، غیر معیاری تعلیم اور بے روزگاری۔ 

 

 تھوڑی بہت تبدیلیاں تو آئی مگر بنیادی تبدیلیوں کا پہیہ وہی کا وہی جام ہے۔ تو ایسے میں ہمارے نئے   وزیراعلیٰ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہے ،خاص کر امن کے حوالے سے کیونکہ آج کل بدامنی اپنی انتہا پر ہے۔ باجوڑ ہو، تیراہ ہو یا پورے قبائلی اضلاع کے لوگ ،امن کو ترس رہے ہیں

 

باجوڑ میں تو اندرونی نقل مکانی بھی ہوئی، لوگ خیمہ بست بھی ہوئیں، کئی لوگ تو واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن پھر بھی بد امنی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ اگر   وزیراعلیٰ امن کی بات پر زور دیں شاید ہی کچھ ہو کیونکہ جس علاقے سے ان کا تعلق ہے وہ بخوبی ان سب حالات کو بہتر جان سکتے ہیں۔

 

تعلیم و روزگار کے جو ابتر صورتحال ہے اس سے بھی پوری دنیا واقف ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیمی صورتحال انتہائی کمزور ہے، لڑکیوں کی شرح خواندگی ساتھ فیصد ہے اس پر تو وزیراعلی کو خاص ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ قبائلی اضلاع میں میڈیکل کالجز اور یونیورسٹی بنائی جائیں۔ ایک اور اہم بات قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کے لیے  جب بھی کسی سرکاری ٹیسٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے تو اس میں اپنا مرکز ہوتا ہی نہیں ہے۔ جس کے لیے ان کو دیر، سوات، ملاکنڈ ڈویژن یا پشاور جانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے اکثر لڑکیاں نا چاہتے ہوئے بھی پیچھے رہ جاتی ہے جو انتہائی دکھ کی بات ہے۔ 

 

اس کے علاوہ صحت کی صورتحال پر خاص توجہ دیں کیونکہ جب بھی کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے تو مریضوں کو پشاور منتقل کیا جاتا ہے جن میں اکثر مریض جن کی حالت تشویش ناک ہوتی ہے یا جن کو فوری طور پر علاج کی ضرورت ہوتی ہے راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ ایک اور اہم بات معیشت اور روزگار سے متعلق ہے جو انتہائی خستہ ہے جس کا اندازہ آپ خود لگائیں کہ کس تیز رفتار سے نوجوان اپنے جانوں کی پرواہ کئے بغیر غیر قانونی طور پر باہر ممالک جا رہے ہیں۔ جن میں کثیر تعداد کی لاشیں اپنے خوابوں کو پورے کیۓ بغیر واپس لائی جاتی ہے۔ 

 

ایک اور اہم پہلو سیاحت ہے جس کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارا پختونخوا صوبہ انتہائی خوبصورتی کا حامل ہے۔ اگر ہماری سیاحت کو فروغ ملے گی تو اس کی وجہ سے سیاح زیادہ آئینگے جس کی وجہ سے مقامی ہوٹلوں، ڈھابوں اور پورے علاقے کو فائدہ ہوگا۔

 

وزیراعلی کو چاہیے کہ قبائلی اضلاع کی محرومیوں اور مسائل کی طرف خصوصی  توجہ دیں کیونکہ قبائلی عوام کی ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہے اور انتہائی پر امید ہے کہ ہمارے مسائل سے وزیراعلی بخوبی واقف ہے اور صاحب اختیار بھی ہے جس کی وجہ سے مثبت اور فوری تبدیلی آئے گی۔ قبائلی اضلاع کو گڈ گورننس کی اشد ضرورت ہے کیونکہ گڈ گورننس ہی کسی علاقے، معاشرے اور ملک کی تقدیر بدلتی ہے۔