ایزل خان
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں عورت کی خاموشی کو اس کی اچھائی کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اس لیے عام ہے کیونکہ صدیوں سے عورت نے اپنے حق کے لیے بولنا کم کر دیا یا شاید ختم کر دیا۔ کبھی لاعلمی، کبھی معاشرتی دباؤ، اور کبھی اس تلقین کی وجہ سے کہ عورت کا کام صرف برداشت کرنا اور صبر کرنا ہے۔
ہمیں یہ سن کر اچھا کیوں لگتا ہے کہ فلاں عورت نے اپنے شوہر، بچوں یا گھر کے لیے قربانی دی؟ ہم ایک لمحے کے لیے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم عورت کی اچھائی ناپنے کا غلط پیمانہ استعمال کر رہے ہیں؟ ہم نے اسے بولنے سے روک کر “اچھی” بننے پر مجبور کیا ہے۔ اگر اسے بولنے کا حق ملے، تو شاید وہ بہت کچھ کہنا چاہے جو برسوں سے دل میں دبا رکھا ہے۔
میں ایک بات آپ سب سے شیئر کرنا چاہتی ہوں جو شاید آپ نے بھی دیکھی ہو۔ اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہو اور دوسری عورتیں اس کے حق میں بات کریں، تو گھر کی بڑی عورتیں، مائیں، دادی یا نانیاں کہتی ہیں کہ عورت کو برداشت کرنا چاہیے کیونکہ وہ گھر کی بنیاد ہے۔ کبھی کبھی تو بولنے والی عورت خود کو مجرم سمجھنے لگتی ہے، جیسے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا گناہ ہو۔ میں نے خود سوچا، ایسا کیوں ہے؟ پھر میں نے اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
میرا مزاج ویسے بھی خاموش طبع ہے۔ شور شرابہ اور ہجوم سے دور رہنا پسند ہے۔ لیکن جب کسی سے بات کرتی ہوں، تو گہرائی سے بات کرتی ہوں۔ چنانچہ میں نے کئی بزرگ خواتین سے ان کی زندگی کی کہانیاں سنیں۔ ان سب میں ایک بات مشترک تھی، برداشت کرنا، شوہر کے ہاتھ اٹھنے پر خاموش رہنا، ماں باپ کی گالیوں پر چپ رہنا، اور کبھی شکوہ نہ کرنا۔ ایک خاتون نے کہا، "بیٹی، مردوں کے سامنے عورتیں کیا کہہ سکتی ہیں، برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ عورتیں گھر کی بنیاد ہوتی ہیں، اگر بولیں تو گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔"
یہ بات سن کر میں حیران رہ گئی کہ اگر رشتہ اتنا نازک ہے کہ ایک عورت کے بولنے سے ٹوٹ جائے تو کیا وہ رشتہ واقعی مضبوط ہے؟ کیا وہ دل سے نبھایا جاتا ہے یا مجبوری سے؟ اگر عورت گھر کی بنیاد ہے تو کیا اس پر اتنا بوجھ ڈالنا انصاف ہے؟ اگر وہ اندر ہی اندر ٹوٹ جائے، تو کیا وہ بنیاد باقی رہ سکتی ہے؟ میں ہرگز یہ نہیں کہتی کہ عورت بدتمیزی کرے، لیکن اپنی حد میں رہ کر اپنی رائے دینا کوئی جرم نہیں۔ ہماری بیشتر بزرگ خواتین کو اپنے حقوق کا علم ہی نہیں تھا۔ ظلم کے خلاف بولنا شوہر کی "نافرمانی" سمجھا جاتا تھا۔
میرے خیال میں “اچھی عورت” وہ نہیں جو خود کو مٹا دے، بلکہ وہ ہے جو اپنی پہچان برقرار رکھے، اپنی عزت نفس کا خیال رکھے، اور دوسروں کے لیے نرمی کے ساتھ خود کے لیے مضبوطی سے کھڑی ہو۔ مگر ہمارا معاشرہ اب بھی عورت سے برداشت کی توقع رکھتا ہے۔ جب وہ ہر ظلم، بدسلوکی، اور منافقت برداشت کرے تو نیک کہلاتی ہے۔ لیکن جب وہ شعور حاصل کر لے اور "نہیں" کہنا سیکھ جائے تو بدتمیز کہی جاتی ہے۔ اگر وہ دوسروں کے لیے قربانی دے تو عظیم، مگر جب اپنی خوشی یا خوابوں کی بات کرے تو خود غرض۔
کیا یہ انصاف ہے؟ کیا عورت کو اپنی زندگی کے فیصلوں کا حق نہیں؟ کیا وہ اپنی رائے نہیں دے سکتی بغیر اس خوف کے کہ لوگ کہیں گے یہ بدل گئی ہے؟ عورت کی اچھائی اس کے صبر سے نہیں بلکہ اس کے کردار، نیت، اور رویے سے ہونی چاہیے۔ جو عورت اپنے گھر اور معاشرے میں محبت اور خلوص کے ساتھ مثبت کردار نبھائے، وہ اچھی عورت ہے چاہے بولے یا چپ رہے۔ اچھی عورت وہ نہیں جو اپنی ذات قربان کر دے بلکہ وہ ہے جو دوسروں کا احترام کرتے ہوئے خود کو بھی زندہ رکھے۔
کچھ روایات، کہانیاں اور مثالیں ہمیں غلط سکھائی گئی ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم سوچیں اور بدلنے کی کوشش کریں۔ جب آج کی عورت بولتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سمجھ گئی ہے، تو پھر ہمیں برا کیوں لگتا ہے؟ تبدیلی زندگی کی نشانی ہے۔
آج کی عورت اگر اپنی عزت نفس کی حفاظت، اپنی خوشی اور خوابوں کی تکمیل کے لیے قدم اٹھاتی ہے تو وہ کمزور نہیں بلکہ باشعور ہے۔ ہمیں “اچھی عورت” کی تعریف ازسرنو طے کرنی ہوگی ۔ وہ جو دوسروں کا احترام کرے، مگر اپنی آواز کو دبنے نہ دے۔ جو گھر بھی سنبھالے اور اپنے خواب بھی پورے کرے۔ ایسی عورت نہ کمزور ہے، نہ بدتمیز، نہ مغرور ، بلکہ خوددار ہے۔