پاکستان میں میڈیا ایجوکیشن کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تعلیمی اداروں، میڈیا ہاؤسز اور صحافتی انجمنوں کے درمیان مضبوط شراکت داری کو وقت کی ضرورت قرار دیا گیا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ برائے ڈیجیٹل میڈیا میں پیر کے روز جاری کی جانے والی رپورٹ “Modernizing Media Education in Pakistan” کے مطابق، ملک میں میڈیا کی ڈگریاں دینے والے تقریباً 60 فیصد تعلیمی اداروں کا کسی بھی سرکاری یا نجی میڈیا ہاؤس کے ساتھ باضابطہ اشتراک موجود نہیں۔
یہ رپورٹ انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (IMS)، میڈیاستان اور انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (IRADA) نے مشترکہ طور پر تیار کی، جبکہ تقریب کا انعقاد فریڈم نیٹ ورک اور کولیشن اگینسٹ ڈس انفارمیشن کے تعاون سے کیا گیا۔ میزبانی کی ذمہ داری شعبہ ڈیجیٹل میڈیا کی انچارج ڈاکٹر سویرا شامی نے انجام دی۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں صحافت اور کمیونیکیشن اسٹڈیز کے 92 ڈیپارٹمنٹس میں مجموعی طور پر تقریباً 37 ہزار طلباء زیرِ تعلیم ہیں، جبکہ دو دہائی قبل صرف 21 یونیورسٹیاں میڈیا تعلیم فراہم کر رہی تھیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ نصف کے قریب جامعات نے اپنے نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم وسائل کی کمی، جدید سہولیات کی عدم دستیابی اور عملی تربیت کے فقدان جیسے چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ تقریباً 40 میڈیا ڈیپارٹمنٹس کے پاس ڈیجیٹل میڈیا لیبارٹریاں نہیں ہیں، جبکہ 10 فیصد اداروں میں ٹی وی اسٹوڈیوز سمیت دیگر عملی سہولیات سرے سے موجود نہیں۔
رپورٹ کے مصنف اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کے پروگرام مینیجر عدنان رحمت نے کہا کہ میڈیا اسٹڈیز کے شعبوں کی پیشہ ور صحافتی تنظیموں کے ساتھ ادارہ جاتی شراکت ضروری ہے تاکہ طلباء کو پیشہ ورانہ اخلاقیات، لیبر قوانین، نیوز روم ڈائنامکس اور پالیسی فریم ورک کی بہتر سمجھ حاصل ہو سکے۔
رپورٹ میں میڈیا تعلیم کے ڈھانچے میں اصلاحات کے لیے 16 نکاتی پلان پیش کیا گیا ہے، جس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، جدید نصاب، اساتذہ کی تربیت، علاقائی نمائندگی اور صنفی شمولیت پر زور دیا گیا ہے۔
شریک مصنف اور پنجاب یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد کمبوہ نے کہا کہ اساتذہ کی صلاحیتوں میں اضافہ اور تدریسی جدت لانے سے میڈیا کے اعلیٰ تعلیمی ادارے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے معیار میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔