محمد بلال یاسر
باجوڑ میں زمین کے تنازعات ایک ایسا سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس نے اب تک سینکڑوں خاندان اجاڑ دیے۔ محکمہ پولیس کنٹرول روم کے جاری کئے گئے ڈاکومنٹس کے مطابق ضلع باجوڑ میں اراضی تنازعات کیوجہ سے سال 2021 سے لیکر ستمبر 2025 تک 85 تنازعات کے کیسز میں 32 افراد مارے گئے جبکہ 73 زخمی ہوئے۔
اس سے قبل ایف سی آر دور میں بھی کافی اموات اور زخمی ہوئے تھے لیکن ان کے اعداد وشمار نہ مل سکے۔ ان تنازعات نے نہ صرف قیمتی جانیں لیں بلکہ مقامی امن و امان اور ترقی کو بھی متاثر کیا ہے۔ کیونکہ اراضی ہی یہاں کے لوگوں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ہے اور اسی طرح کے تنازعات میں سالوں یہ زمینیں بنجر بھی رہتی ہیں۔
تحصیل ماموند اس مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ۔ ماموند کے بدان ماموند میں کئی دہائیوں سے دو خاندانوں کے درمیان اراضی تنازعہ چلتا آرہا ہے چند ماہ قبل اس خاندان کے ایک خوبصورت چشم و چراغ بیس سالہ خوبرو نوجوان معاذ خاں جو اپنے دوستوں کے ساتھ معمول کے دن گزار رہا تھا کہ ایک پرانے زمینی تنازعے نے اس کی جان لے لی۔ معاذ کے ساتھ موجود دو بے گناہ دوست شدید زخمی ہوئے۔ معاذ کے والد بھی کچھ سال پہلے اسی تنازعے میں قتل ہوئے تھے ، جس پر علاقے کے لوگوں نے احتجاج بھی کیا اور حکومت سے اس کے پرامن حل کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ کہانی صرف معاذ خان کے خاندان کی نہیں، بلکہ باجوڑ کے سینکڑوں خاندانوں کی ہے۔ سال 2018 سے پہلے جب باجوڑ قبائلی علاقہ تھا، تب بھی زمین کے جھگڑوں نے لوگوں کی زندگیاں اجاڑیں لوگوں خود اپنے ہاتھوں اپنی معاشی قتل کرتے رہیں۔ اور 2018 میں خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد بھی حالات تقریباً ویسے ہی ہیں۔
عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات زیر التوا ہیں لیکن سست روی کے باعث بہت کم فیصلے ہو پاتے ہیں، اور جن میں فیصلے ہو بھی جائیں، ان پر عمل درآمد ایک الگ مسئلہ ہے۔باجوڑ کے عدالتوں مٰیں اس وقت 1446مقدمات زیر التوا ہے جن میں زیادہ تر اراضی تنازعات کے کیسز ہیں۔
اس حوالے سے ضلعی عدالت میں کام کرنے باجوڑ بار ایسوسی ایشن کے ذمہ دار حیاء خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ لوگ عدالتوں پر اعتماد نہیں کرتے ، عدالتوں پر اعتماد ہے تب ہی تو روزانہ کے بنیاد پر درجنوں نئے کیسز کا اندراج ہو رہا ہے۔ اگر لوگوں کا اعتماد نہ ہوتا تو یہاں کھبی نہ آتے ۔
البتہ یہ بات مسلم ہے کہ عدالتی کام سست روی کا شکار ہے ، عدالت کیلئے کسی کا فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے مگر عملداری بہت آسان ہے۔ حال ہی میں پشاور ہائیکورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ سول کیسز کا چوبیس مہینے کے اندر پر صورت میں فیصلہ لازمی کیا جائے۔ فیصلوں میں تاخیر کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کیسز کی تعداد بہت زیادہ جب کہ ججز کی تعداد نہایت کم ہے ۔
تنازعات کے حل کے لیے ضلعی سطح پر ڈِسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی (ڈی آر سی) بھی کام کر رہی ہے۔ تاہم ہر تنازعہ ان کے حوالے نہیں کیا جاتا اور اکثر لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس حوالے چیئرمین ڈی آر سی سابق تحصیلدار عبدالحسیب کہتے ہیں کہ پہلے جو نظام تھا ملک اور علاقائی مشر اپنے حجرے وغیرہ میں بیٹھ کر زبانی طور پر اراضی کی خرید و فروخت کردیتے تھے اور اس کا کوئی ریکارڈ نہ رکھتے اب زمانہ وہ نہیں رہا ریکارڈ ہے نہیں اس وجہ سے لڑائیاں پیدا ہوگئیں ہیں۔ ہم مقامی جرگوں کے ذریعے بغیر کسی خرچ کے اس کا صلح تلاش کرتے ہیں جس سے کئی خاندان نقصان سے بچ گئے ہیں۔
حکومت نے پانچ سال پہلے زمینوں کے ریکارڈ کو مرتب کرنے اور بندوبست اراضی کے لیے منصوبہ شروع کیا تھا، لیکن تاحال اس پر کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔
بندوبست اراضی اور اس کے ڈیجیٹائزشن جو کہ منصوبہ کا بنیادی مقصد تھا ۔ تاحال کس حد تک ممکن ہوا۔ اور اگر نہیں تو کیوں اس حوالے سے متعلقہ محکمہ کا نمائندہ تحصیلدار اجمل شاہ نے بتایا کہ ہم چند سال قبل یہاں ایک پراجیکٹ کے تحت آئے ہیں ، ہم سب سے پہلے علاقے کے لوگوں کا شجرہ نسب درج کرتے ہیں ویلج کونسل وائز ریکارڈ بناتے ہیں ، آگاہی مہم چلاتے ہیں پھر موضع بندی کرتے ہیں تاکہ اصل مالکان کا علم ہوسکے۔ ہم نے ابھی تک تحصیل خار کا ڈیٹا مکمل کیا ہے۔ مگر اس میں بھی مقامی لوگ تعاون نہیں کرتے اس وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
باجوڑ میں زمین کے تنازعات نے نہ صرف سینکڑوں خاندان اجاڑ دیے ہیں بلکہ انصاف کے نظام پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کئے ہیں۔ مقامی لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اراضی کے بندوبست ،اس کی ڈیجیٹائزیشن اور عدالتی اصلاحات سے یہ دیرینہ مسئلہ کسی حد تک حل ہو سکے گا۔