طورخم بارڈر 16 ویں روز بھی بند ہے، جس کے باعث پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی سرگرمیاں اور مسافروں کی آمدورفت مکمل طور پر معطل ہیں۔ اس طویل بندش سے دونوں ممالک کے تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور عوام کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زاہد شینواری کے مطابق پاک افغان تجارت کی بندش سے روزانہ 70 سے 80 کروڑ روپے تک کا نقصان ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم تقریباً ایک ارب ڈالر ہے، جبکہ بارڈر کی بندش سے ہزاروں گاڑیاں دونوں اطراف پھنس چکی ہیں اور کروڑوں روپے مالیت کا سامان ضائع ہو رہا ہے۔
تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرحدی کشیدگی کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ تجارتی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہو سکیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے باعث 12 اکتوبر سے دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ مکمل طور پر معطل ہے۔ پاکستان سے چاول، سیمنٹ، ادویات، طبی آلات، کپڑا اور تازہ پھل افغانستان بھیجے جاتے ہیں، جبکہ افغانستان سے کوئلہ، سبزیاں، خشک میوہ جات، سوپ اسٹون اور تازہ پھل پاکستان لائے جاتے ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ کے بعد پاکستانی فورسز نے جوابی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں چترال سے بلوچستان تک سرحدی کشیدگی بڑھ گئی۔ اس کے بعد طورخم، خرلاچی، غلام خان اور چمن سمیت تمام اہم تجارتی راستے بند کر دیے گئے۔
اس بندش کے نتیجے میں دونوں ممالک کو اربوں روپے کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاک افغان کشیدگی میں کمی کے لیے دوحہ (قطر) اور استنبول (ترکی) میں مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں جن میں جنگ بندی کے تسلسل اور تجارتی راہداریوں کی بحالی پر بات چیت ہوئی، تاہم تاحال کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
ادھر طورخم شاہراہ پر شاگئی کے مقام پر پھنسے ہوئے ٹرانسپورٹرز اور ڈرائیورز نے بارڈر کھولنے کے لیے ختم القرآن کی تلاوت شروع کر رکھی ہے۔ ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ گاڑیوں میں موجود اربوں روپے کا سامان تباہ ہو رہا ہے اور وہ حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر سرحد کھولی جائے تاکہ بحران ختم ہو سکے۔