استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے دوران پاکستانی وفد نے افغان طالبان کے وفد کو دہشتگردی کے خاتمے سے متعلق اپنا حتمی اور دوٹوک موقف پیش کردیا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاکستان نے واضح کیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے دہشتگردوں کی سرپرستی کسی صورت قبول نہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے طالبان پر زور دیا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنا ناگزیر ہیں، تاہم طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر قرار دیے گئے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق نظر آرہا ہے کہ افغان طالبان کسی اور ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، جو افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔ پاکستان کے مطالبات واضح، شواہد پر مبنی اور مسئلے کے حقیقی حل کے مطابق ہیں، جبکہ طالبان کی ہٹ دھرمی اور عدم تعاون دیگر فریقین پر بھی عیاں ہوچکی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے دہشتگردی کے مرکزی نکات پر کسی قسم کے سمجھوتے کا امکان مسترد کردیا ہے۔ ترکیہ کوشش کر رہا ہے کہ طالبان زمینی حقائق کو سمجھیں اور سنجیدگی سے تعاون کریں تاکہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں۔
گزشتہ روز استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا جس میں پاکستان نے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جامع پلان پیش کیا۔ اس سے قبل قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی طے پائی تھی۔
پاک افغان کشیدگی کے باعث چمن، خیبر، جنوبی و شمالی وزیرستان اور کرم کے سرحدی راستے کئی روز سے بند ہیں، جبکہ باب دوستی، طورخم، خرلاچی، انگور اڈہ اور غلام خان کے مقامات پر سینکڑوں مال بردار گاڑیاں تاحال پھنسے ہونے کی اطلاعات ہیں۔