رعناز
آج کے دور میں اگر ہم غور کریں تو ایک دلچسپ تبدیلی ہمارے کلچر میں آ چکی ہے۔ کبھی وقت تھا جب کسی خوشی کے موقع پر میٹھائی کا تصور ہی سب سے پہلے ذہن میں آتا تھا۔ کوئی امتحان پاس کرتا، کسی کی منگنی ہوتی، کوئی گھر واپس آتا یا کوئی مہمان آتا تو فوراً میٹھائی منگوانے یا تقسیم کرنے کا خیال آتا۔
لال ڈبے میں بند گرم گرم گلاب جامن، رس بھری برفیاں اور چم چم جیسے نام سنتے ہی منہ میں مٹھاس گھل جاتی تھی۔ مگر اب وہ زمانہ آہستہ آہستہ پیچھے رہ گیا ہے۔ بلکہ ختم ہونے کے قریب ہے۔
آج کے زمانے میں خوشی کا مطلب “کیک” بن چکا ہے۔ چاہے موقع کوئی بھی ہو، کیک کاٹنا لازم ہو گیا ہے۔ پہلے صرف سالگرہ پر کیک کاٹا جاتا تھا۔
بچے کی پہلی سالگرہ ہو، کسی کی اٹھارہویں سالگرہ ہو یا پچاسویں، سب کے لیے کیک لانا ایک روایت بن گئی تھی۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اب کیک صرف سالگرہ کے ساتھ مخصوص نہیں رہا بلکہ ہر موقع پر موجود ہوتا ہے۔
کوئی ہسپتال میں بیمار ہو تو “گٹ ویل سون” کا کیک، کوئی باہر ملک جا رہا ہو تو “بیسٹ آف لک” کا کیک، کوئی واپس آ رہا ہو تو “ویلکم بیک” کا کیک، کسی کی منگنی یا شادی ہو تو خاص ڈیزائن والا کیک۔ یہاں تک کہ اب بچے کے اسکول میں داخلے یا آفس میں ترقی پر بھی کیک کاٹا جاتا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے خوشی کے ہر موقع پر کیک کاٹنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ کیک کا اپنا ایک انداز اور کشش ہے۔ رنگ برنگی آئسنگ، خوبصورت ڈیزائن، خوشبودار کریم، اور نام لکھے ہوئے پیغام اسے ایک خاص تاثر دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگ چاہتے ہیں کہ ہر خوشی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا جائے، تصویریں بنیں، ویڈیوز بنیں اور سب کو دکھایا جائے۔ اور کیک ان سب چیزوں میں مرکزی کردار بن چکا ہے۔
لیکن اگر ذرا ماضی میں جائیں تو خوشی کا مطلب تھا “میٹھائی بانٹنا”۔ میٹھائی صرف ایک کھانے کی چیز نہیں تھی بلکہ ایک جذبہ تھی۔ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو لوگ ڈبوں میں میٹھائی بھجواتے۔
کسی نے امتحان پاس کیا ہو تو دوستوں کو میٹھائی کھلائی جاتی۔ حتیٰ کہ اگر کوئی دور سے آتا تو میٹھائی کے ڈبے میں اپنی محبت اور خلوص چھپا کر لاتا۔ گلاب جامن، برفی، رس گلہ، لڈو یہ سب ہمارے تہذیبی اور ثقافتی حصے تھے۔ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا دور ختم ہو گیا ہو اور ان کی جگہ ایک “کیک” نے لے لی ہو۔
یہ تبدیلی ایک لحاظ سے اچھی بھی ہے کہ کیک نے تقریبات کو مزید دلکش بنا دیا ہے۔
خوبصورت انداز، نئے ذائقے، اور مختلف سٹائلز میں کیک نے ہر تقریب کو خاص بنا دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تبدیلی نے ہماری پرانی روایات کو دھندلا دیا ہے۔ آج کے بچے شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ کسی زمانے میں “میٹھائی بانٹنا” کتنی بڑی خوشی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔
ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اب کیک کے ذائقوں نے بھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ پہلے صرف ونیلا یا چاکلیٹ کیک ہوا کرتے تھے، مگر اب ریڈ ویلوٹ، پائن ایپل، بلیک فارسٹ، اور درجنوں نئے فلیور آ چکے ہیں۔ کیک ایک “سٹیٹس سمبل” بھی بن گیا ہے۔ لوگ کیک پر اپنا نام یا کوئی خاص جملہ لکھوا کر اسے ذاتی نوعیت کا بنا لیتے ہیں۔ بڑے بڑے برانڈز اور بیکریاں خاص ڈیزائن کے کیک بنا کر مارکیٹ میں مقابلہ کر رہی ہیں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ میٹھائی آہستہ آہستہ صرف چند مذہبی یا روایتی مواقع تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جیسے عید، شب برات یا شادی کی تقریب۔ جبکہ عام خوشی کے مواقع پر اب میٹھائی کا خیال بہت کم آتا ہے۔ دکانوں پر بھی میٹھائی کی رونق پہلے جیسی نہیں رہی۔ اب زیادہ تر لوگ بیکری جا کر کیک آرڈر کرواتے ہیں۔
آخر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ خوشی کا اصل مطلب کیا ہے؟ کیا یہ کسی خاص چیز سے منسلک ہے؟ یا یہ ہمارا اپنا انداز ہے جسے ہم وقت کے ساتھ بدل دیتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ خوشی چاہے میٹھائی بانٹ کر منائی جائے یا کیک کاٹ کر، اہم بات وہ جذبہ ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی انکار کے قابل نہیں کہ “کیک” نے آج کے دور میں وہ جگہ لے لی ہے جو کبھی “میٹھائی” کو حاصل تھی۔
کبھی وقت نکال کر میٹھائی کا ایک ڈبہ کسی کے ساتھ بانٹیں، ہو سکتا ہے آپ کسی کو ماضی کی خوبصورت یادوں میں لے جائیں۔ اور کیک کاٹنے کا رواج اپنی جگہ خوبصورت ہے، لیکن اپنی روایات کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔
خوشی کا اظہار صرف نئے طریقوں سے نہیں بلکہ پرانی روایتوں سے بھی خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔