ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
کیا انسان کی پہچان اُس کے رنگ سے ہے یا اُس کے دل سے؟ Home / بلاگز,عوام کی آواز /

کیا انسان کی پہچان اُس کے رنگ سے ہے یا اُس کے دل سے؟

سعدیہ بی بی - 24/10/2025 163
کیا انسان کی پہچان اُس کے رنگ سے ہے یا اُس کے دل سے؟

سعدیہ بی بی 
 

انسان کو خدا نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، مگر بدقسمتی سے ہم نے خوبصورتی کو صرف چہرے کے رنگ تک محدود کر دیا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں "گوری رنگت" کو برتری کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور سانولی یا گہری رنگت کو کمتر نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پرجب بات رشتوں یا شادی کی آتی ہے۔ اکثر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ جب کسی سانولی یا گہری رنگت والی لڑکی کے لیے رشتہ آتا ہے، تو والدین کے دل میں ایک انجانا خوف جاگ اٹھتا ہے۔ انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ کہیں لوگ ان کی بیٹی کے رنگ کی وجہ سے انکار نہ کر دیں۔ معاشرے کا یہ رویہ اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ لوگ انسان کی اصل پہچان کے بجائے اس کی رنگت کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین کا یہ خوف اکثر سچ بھی ثابت ہو جاتا ہے۔ 
 

جب رشتہ دیکھنے والے آتے ہیں تو ان کی نگاہ سب سے پہلے چہرے پر جاتی ہے، اور اگر رنگ تھوڑا سانولا یا گہرا ہو تو فضا میں ایک خاموش سا تجزیہ پھیل جاتا ہے۔ کبھی کوئی آہستہ سے کہتا ہے، "رنگ تو تھوڑا کالا ہے، مگر شکل ٹھیک ہے"، کوئی کہتا ہے، "تھوڑی کریم لگا لیتی تو رنگ نکھر جاتا"، کبھی کسی بزرگ خاتون کے منہ سے نکلتا ہے، "آج کل کے لڑکے تو گوری لڑکیاں ہی پسند کرتے ہیں"، اور کچھ تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں، "کالے لوگ تو بس پڑھ لکھ ہی سکتے ہیں، رشتے کہاں آتے ہیں"۔
 

 یہ جملے معمولی نہیں ہوتے۔ یہ دل میں تیر کی طرح چبھتے ہیں۔ ایک لڑکی جو اپنی تعلیم، کردار، اور حیا سے بھرپور ہوتی ہے، اس کے سارے اوصاف ایک لمحے میں رنگ کی بنیاد پر کم کر دیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے دل میں سوچتی ہے کہ کیا واقعی میری قیمت صرف میری رنگت ہے؟ کیا میرے اخلاق، تربیت، اور کردار کی کوئی اہمیت نہیں؟ یہ سوال ہر اُس لڑکی کے دل میں جنم لیتا ہے جو معاشرتی معیار کے مطابق "گوری" نہیں ہے۔
 

یہ سب باتیں بظاہر معمولی لگتی ہیں مگر ان کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ ایک لڑکی جو زندگی سے بھرپور، خوابوں سے سجی ہوتی ہے، وہ ان چند جملوں سے ٹوٹ کر رہ جاتی ہے۔ وہ خود سے شرمندہ ہونے لگتی ہے، اپنے آئینے سے نظریں چرانے لگتی ہے، اور سوچتی ہے کہ شاید وہ واقعی کم خوبصورت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خوبصورتی کا معیار آخر ہے کیا؟ کیا صرف گورا رنگ ہی خوبصورتی ہے؟ کیا ایک سانولی یا گہری رنگت والا چہرہ حسین نہیں ہو سکتا؟
 

خوبصورتی کا اصل مفہوم یہی ہے کہ ایک نرم دل، سچائی بھری زبان، اور دوسروں کے لیے خیرخواہی۔ ایسا انسان کبھی بدصورت نہیں ہو سکتا، چاہے اس کا رنگ کیسا بھی ہو۔ رنگ تو محض ایک خول ہے، اصل روشنی تو دل کی ہے۔ خوبصورتی کبھی رنگ میں نہیں، بلکہ دل کے اجالے میں ہوتی ہے۔ اگر کسی کا دل صاف ہو، اخلاق اچھے ہوں، باتوں میں نرمی ہو، اور سوچ مثبت ہو تو وہ سب سے زیادہ حسین ہے۔ رنگت وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے، مگر کردار ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ وہ لوگ جو صرف رنگ کے پیچھے بھاگتے ہیں، دراصل 

 

خوبصورتی کے اصل مفہوم سے ناواقف ہیں۔
معاشرہ بدلنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ خدا نے ہر انسان کو اپنی ایک خاص پہچان کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ کسی کا رنگ سانولا ہے تو کسی کا گورا، کسی کی آنکھیں گہری ہیں تو کسی کی روشن۔ یہ سب فرق اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا حسن ہیں، کسی کی کمی نہیں۔ جیسے پھولوں کے باغ میں مختلف رنگوں کے پھول مل کر خوبصورتی پیدا کرتے ہیں، ویسے ہی انسانوں کے مختلف رنگ دنیا کو خوبصورت بناتے ہیں۔
 

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان کی اصل پہچان اس کے رنگ سے نہیں بلکہ اس کے نصیب، کردار اور محنت سے ہوتی ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ گزرے ہیں جن کی رنگت عام تھی، مگر ان کے نصیب اور کارنامے انہیں عظیم بنا گئے۔ وہ گورے چہرے والے نہیں، بلکہ روشن کردار والے تھے۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک روشن مثال حضرت بلال حبشیؓ کی ہے۔
 

حضرت بلالؓ کا تعلق افریقہ سے تھا، ان کی رنگت گہری تھی، اور زمانۂ جاہلیت میں وہ غلام سمجھے جاتے تھے۔ مگر جب اسلام آیا تو ان کے ایمان اور تقویٰ نے انہیں ایسا مقام عطا کیا کہ آج ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے خود ان سے محبت فرمائی اور فرمایا کہ "میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی آہٹ سنی۔" سوچنے کی بات ہے، ایک ایسا شخص جسے معاشرہ صرف اس کے رنگ کی وجہ سے کمتر سمجھتا تھا، اسلام نے اسے عزت و عظمت کی وہ بلندی دی کہ آج تک ان کا ذکر ایمان کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حضرت بلالؓ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اصل قدر رنگ میں نہیں بلکہ نیت اور عمل میں ہے۔
 

ہمارا معاشرہ بدقسمتی سے اس سچائی سے ابھی تک غافل ہے۔ آج بھی رشتوں میں سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ "لڑکی کا رنگ کیسا ہے؟" گویا اگر رنگت گہری ہے تو باقی سب خوبیوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ حالانکہ زندگی گورے چہرے سے نہیں بلکہ نرم دل اور سمجھدار ذہن سے خوبصورت بنتی ہے۔ رنگ وقتی ہوتا ہے، مگر مزاج اور رویہ ہمیشہ کے لیے یاد رہ جاتے ہیں۔
 

اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ وہی سانولی رنگت والی لڑکیاں جنہیں ابتدا میں انکار یا طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آگے چل کر اپنی محنت، صبر اور نصیب کی بدولت کامیاب زندگی گزارتی ہیں۔ وہ اپنے علم، کردار اور اچھے اخلاق سے سب کے دل جیت لیتی ہیں۔ یہ لوگ ثابت کرتے ہیں کہ قسمت رنگ نہیں دیکھتی، وہ صرف محنت، خلوص، اور دعا دیکھتی ہے۔
 

اگر ہم اپنی سوچ میں یہ تبدیلی لے آئیں کہ "رنگ خوبصورتی کا معیار نہیں"، تو بہت سی زندگیاں آسان ہو جائیں گی۔ ہر انسان اپنی جگہ ایک خوبصورت تخلیق ہے۔ اگر ہم کسی کے رنگ پر تنقید کرنے کے بجائے اس کے اخلاق کی تعریف کریں تو ہم نہ صرف اس کا حوصلہ بڑھائیں گے بلکہ اپنی انسانیت بھی سنواریں گے۔ 
 

ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ گورا رنگ کسی کی کامیابی یا خوش نصیبی کی ضمانت نہیں۔ دنیا کے کئی عظیم لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے عام رنگت کے باوجود تاریخ بدل دی۔ وہ اپنی لگن، جذبے اور ایمان سے کامیاب ہوئے۔ ان کے چہرے شاید معاشرتی معیار کے مطابق خوبصورت نہ ہوں، مگر ان کے کردار کی روشنی نے دنیا کے دل روشن کئے۔