ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
سونا جو کبھی خواتین کا فخر تھا، اب حسرت بن گیا! Home / عوام کی آواز /

سونا جو کبھی خواتین کا فخر تھا، اب حسرت بن گیا!

سپر ایڈمن - 20/10/2025 262
سونا جو کبھی خواتین کا فخر تھا، اب حسرت بن گیا!

خولہ زر افشاں

 

ایک دور تھا جب سونے کے زیورات صرف عورت کے خواب، فخر اور تحفظ کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ چاہے وہ دیہی علاقوں کی گھریلو خاتون ہو یا شہری زندگی گزارنے والی کوئی پروفیشنل، سونا اس کے لیے صرف ایک زیور نہیں، بلکہ ایک وقار، ایک وراثت اور ایک سرمایہ تھا۔

 

مگر آج، مہنگائی کے بے قابو جن نے سونے کو خواتین کی پہنچ سے ایسے دور کر دیا ہے جیسے کوئی چھوٹا بچہ آسمان سے تارے مانگ رہا ہو۔ متوسط طبقے کی خواتین کی دوسری ادھوری خواہشات کے ساتھ، اب سونے کے زیورات کی خواہش بھی ان کے دل کے نہاں خانوں میں دفن ہو چکی ہے۔

 

"آج کل تو سونے کی چمک صرف دکان کے شو کیس میں ہے۔"

 

یہ کہنا تھا مردان کے ایک پرانے صراف، حاجی امجد علی کا، جو گزشتہ 35 سال سے سونے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ اپنے دکان کے کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے، گاہکوں کی کمی کے باعث خالی ہاتھوں کو بار بار مسلتے ہوئے وہ بولے"پہلے ہر مہینے کم از کم دس سے پندرہ شادیوں کے سیٹ بنتے تھے۔ اب ہفتے میں ایک بھی نہیں بنتا۔ بہت کم لوگ سونے کے زیور خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ تولے کا ریٹ 4,44,900 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ عام بندہ تو صرف دیکھ ہی سکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ہمارا کاروبار بند ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔"

 

پہلے صرافہ بازار میں جو رونق اور لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا، اب وہ نظارہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بازار میں صرف اکا دُکا گاہک ہی نظر آتے ہیں۔

 

پاکستانی ثقافت میں سونا محض زیور نہیں، ایک روایت ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد سے ہی مائیں تھوڑا تھوڑا کر کے سونا جمع کرنے لگتی تھیں، تاکہ وقت آنے پر عزت سے جہیز دے سکیں۔ لیکن اب، جب آٹا، چینی، بجلی اور پیٹرول نے ہی زندگی دوبھر کر دی ہے، تو سونا کیسے خریدا جائے؟

 

مردان کی رہائشی، پچاس سالہ مسز روزینہ نے بتایا"میری دو بیٹیاں ہیں، سوچا تھا دھوم دھام سے ان کی شادی کروں گی۔ مگر مہنگائی کے اس دور میں اب صرف یہی چاہتی ہوں کہ عزت سے ان کی رخصتی ہو جائے۔ پہلے سوچتی تھی کہ سونے کا زیور دوں گی، اب زیور کا خیال دل سے نکال دیا ہے۔

 

مسز روزینہ نے مزید بتایا کہ "میں کئی ایسی لڑکیوں کو جانتی ہوں جن کی شادیاں صرف اس لیے ٹوٹ گئیں کہ لڑکے والے سونے کے زیور نہیں دے سکتے تھے۔"

 

آج کل مارکیٹ میں مصنوعی زیورات بآسانی دستیاب ہیں۔ رنگ برنگے، دلکش ڈیزائنز، اور سستے دام۔ بظاہر یہ مسئلے کا حل لگتے ہیں، لیکن کیا یہ خواتین کی اس جذباتی وابستگی کو پورا کر سکتے ہیں جو سونے سے ہے؟

 

مڈل کلاس کی لڑکیوں کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش ان کے پاس بھی اصلی سونے کے زیورات ہوتے، جنہیں پہن کر وہ بھی پورے اعتماد سے اپنی سہیلیوں کو دکھا سکیں۔

 

اگر موجودہ حالات اسی طرح رہے تو شاید واقعی سونا صرف امیر طبقے کی میراث بن کر رہ جائے۔ متوسط طبقہ، جو کبھی چھوٹے چھوٹے زیور لے کر خوش ہو جاتا تھا، اب مہنگائی کی چکی میں ایسا پسا ہے کہ روٹی، علاج اور تعلیم کے بعد زیورات کا نمبر ہی نہیں آتا۔

تازہ ترین