سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر زاہد شنواری نے کہا ہے کہ طورخم بارڈر کی بندش سے پاکستان اور افغانستان دونوں کو بھاری مالی نقصان ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق روزانہ 70 سے 80 کروڑ روپے تک ملکی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ ایک ارب ڈالر سالانہ تجارت متاثر ہوئی ہے۔
زاہد شنواری نے بتایا کہ بارڈر بندش کو ایک ہفتے سے زائد گزر چکا ہے، جس سے دونوں اطراف مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان سے آنے والے میوہ جات سرحد پر پھنسنے سے خراب ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان سے جانے والی اشیاء کی قلت نے افغان عوام کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ علاقوں میں بھی تجارت بند نہیں کی جاتی، لہٰذا دونوں حکومتوں کو مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہئیں۔
ادھر طورخم بارڈر بندش سے ڈرائیوروں اور مزدوروں کا روزگار بھی متاثر ہوا ہے۔ پھلوں کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہوگیا ہے، انگور 400 سے بڑھ کر 800 روپے، انار 300 سے 600 اور سیب 200 سے 400 روپے فی کلو تک پہنچ گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق 2500 سے زائد ٹیکسیاں بند پڑی ہیں، جب کہ سینکڑوں ٹرک شاہراہوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ تاجروں اور ٹرانسپورٹروں نے مطالبہ کیا ہے کہ بارڈر کشیدگی ختم کر کے تجارت اور آمدورفت بحال کی جائے۔
سیز فائر کے بعد امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ جلد ہی طورخم بارڈر دوبارہ کھول دیا جائے گا۔