ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
جب سوناجیب پر بوجھ بن جائے، آرٹیفیشل زیورات آزادی بن جاتے ہیں! Home / بلاگز,عوام کی آواز /

جب سوناجیب پر بوجھ بن جائے، آرٹیفیشل زیورات آزادی بن جاتے ہیں!

حمیرا علیم - 16/10/2025 86
 جب سوناجیب پر بوجھ بن جائے، آرٹیفیشل زیورات آزادی بن جاتے ہیں!

حمیراعلیم

 
پرانے وقتوں میں برصغیر پاک و ہند میں شادی یا مختلف مواقع پر سونے کے بھاری زیورات تحفتا دئیے جاتے تھے کیونکہ سونا دولت، عزت اور حیثیت کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔اورایک وجہ یہ بھی ہوتی تھی کہ مشکل حالات میں سونا بیچ کر ضرورت پوری کی جا سکے۔


      جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زیورات کی صورت میں خریدا گیا سونا دوبارہ فروخت کرنے پر ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ جیولرز کٹوتی کر کے قیمت لگاتے ہیں۔24 قیراط سونا بالکل خالص ہوتا ہے اس لیے اس میں دوسری دھاتوں نکل، چاندی، تانبا کو مکس کر کے اس کے زیورات بنائے جاتے ہیں۔عموما 22 حصے سونے میں 2حصے دھاتیں ہوتی ہیں۔یعنی فی تولہ (11.664 گرام) میں:
خالص سونا: تقریباً 10.68 گرام
دیگر دھاتیں: تقریباً 0.98 گرام


یوں سونا 22 قیراط کا ہو جاتا ہے۔جتنی زیادہ دوسری دھات ہوگی سونے کے قیراط کم ہوتے جاتے ہیں۔بنواتے وقت جیولرز پورے تولے ، بنوائی، صفائی، پگھلائی، ڈیزائننگ پتھر،موتی سب کی پوری قیمت لیتا ہے لیکن خریدتے وقت وہ ڈیڑھ سے اڑھائی گرام تک کٹنگ کر کے ادائیگی کرتا ہے۔جبکہ پتھروں یا موتیوں کی کوئی قیمت ادا ہی نہیں کی جاتی۔


اس لیےاگر یہی رقم کسی بچت سکیم، اسٹاک مارکیٹ، یا رئیل اسٹیٹ میں لگائی جائے تو بہتر منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔


     کیا واقعی سونا خوشیوں کا باعث ہے یا متوسط طبقے کے لیے ایک معاشی بوجھ بن چکا ہے؟ آج جبکہ معاشی حالات میں عدم استحکام اور افراط زر کی وجہ سے سونے کی قیمت میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔سوناایک ایسے خواب کی صورت اختیار کر گیا ہے جو ہر دل کی خواہش تو ہے مگر ہر جیب کی استطاعت نہیں۔اس لیے آج اس بات کی ضرورت پے کہ ہم فرسودہ روایات کو چھوڑ کر آرٹیفیشل زیورات کو رواج دیں۔


22 قیراط سونے کی حالیہ قیمت 407916 ہے۔اس قیمت پر متوسط طبقے کے لئے زیورات بنوانا ناممکن ہوچکا ہے۔لوگ اپنی عزت بچانے اور معاشرتی دباؤ کے تحت قرض لیتے ہیں اپنی جمع پونجی ختم کرکے مقروض ہو جاتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ یہ رواج رفتہ رفتہ ہماری سماجی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنا رہا ہے۔


      اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بھاری بھر کم زیورات ہوں یا ہلکے بہت کم تقریبات پر استعمال ہوتے ہیں۔آج کل تو چوری کے ڈر سے اکثر بینک کے لاکرز میں ہی رکھے رہتے ہیں۔اور اگر یہ ساڑھے سات تولے تک یا اسے زیادہ ہوں تو زکوہ کی ادائیگی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ لوگوں کی آمدنی دن بدن کم اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔


     اگرچہ یہ بیش قیمت دھات ہے لیکن یہ غیر فعال دولت ہے جو معاشی گردش میں حصہ نہیں لیتی۔ اس کے برعکس آرٹیفیشل زیورات خوبصورت، متنوع اور باآسانی دستیاب ہیں۔ انہیں ہر موقع کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ان کے ضائع ہونے یا چوری ہونے کا خوف بھی نہیں ہوتا۔خواتین انہیں بے فکری کے ساتھ پہن سکتی ہیں چاہے وہ کسی تقریب میں ہوں یا سفر میں۔ اس طرح ذہنی سکون کے ساتھ دلکشی کا اظہار ممکن ہو جاتا ہے۔اور ان پر نہ کوئی زکوٰۃ ہے اور نہ کوئی مالی ذمہ داری۔ اس طرح ایک عام خاندان مالی لحاظ سے بوجھ سے بچ سکتا ہے اور اپنی آمدنی کو بہتر مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے جیسے بچوں کی تعلیم، صحت یا سرمایہ کاری۔


   کچھ عرصے سے آرٹیفیشل جیولری کا رواج بڑھ چکا ہے کیونکہ ایسے زیورات دستیاب ہیں جو بالکل سونے کے لگتے ہیں ان میں نگینے، موتی، کرسٹل اور مختلف دھاتوں کے امتزاج سے ایسے حسین ڈیزائن تیار کیے جاتے ہیں جو جدید فیشن کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شادی کے موقعے پرایسے سیٹس استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ کم خرچ بالا نشین ہوتے ہیں۔ڈیزائنرز ایسے سیٹ بناتے ہیں جن میں مشرقی طرز کے ساتھ مغربی نفاست بھی شامل ہوتی ہے۔ دلہن کے لیے راجستھانی، مغل طرز یا کنٹیمپرری سٹائل کے زیورات آسانی سے دستیاب ہیں۔

 
      یہ فیشن انڈسٹری کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جس نے خواتین کو یہ اعتماد دیا ہے کہ خوبصورتی صرف اصلی سونے کی مرہون منت نہیں بلکہ سلیقہ، ڈیزائن اور نفاست سے بھی جھلکتی ہے۔اگر ہم اجتماعی طور پر اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں اور اس بات کو قبول کریں کہ آرٹیفیشل زیورات پہننے سے کسی کی عزت میں کمی نہیں آتی تو ہم ایک بڑی سماجی تبدیلی لا سکتے ہیں۔


     جب معاشرہ اجتماعی طور پر کسی روایت کو ترک کرتا ہے تو آہستہ آہستہ نئی روایت مضبوطی سے جگہ بنا لیتی ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں سے آغاز کریں اپنے بچوں کی شادیوں پر آرٹیفیشل جیولری کو فروغ دیں۔تو یہ ایک نئی روایت کی بنیاد ہو سکتی ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے سہولت، سادگی اور خوشحالی کا باعث بنے گی۔اگر سونا کم خریدا جائے تو طلب کم ہوگی اور مارکیٹ میں قیمتوں کے توازن کا امکان پیدا ہوگا۔


شادیوں میں آرٹیفیشل زیورات کا رواج نہ صرف ایک معاشی ضرورت ہے بلکہ ایک مثبت سماجی تبدیلی بھی۔ اس سے فضول خرچی، دکھاوے اور قرضوں کے بوجھ سے نجات مل سکتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اور معاشرے کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ عزت، محبت اور خوشی کا تعلق زیورات کی چمک سے نہیں بلکہ دلوں کی سچائی اور رشتوں کی مضبوطی سے ہے۔


اگر ہم اجتماعی طور پر اس سوچ کو فروغ دیں کہ آرٹیفیشل زیورات نہ صرف خوبصورتی بلکہ عقل مندی کی علامت ہیں، تو ہم ایک روشن اور متوازن معاشرتی مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔