کیف آفریدی
حشرات سے متعلق موسمیاتی تبدیلی سے بنیادی طور پر دو طرح کے اثرات سامنے آئے ہیں۔ ایک تو درجہ حرارت میں اضافہ ہے اور دوسری بارشوں میں بے ترتیبی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے اس سے ان حشرات کی آبادی کو تقویت ملی ہے جو گرم موسم کو پسند کرتے ہیں۔ جبکہ سردی میں رہنے والے حشرات پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ اس طرح، بہت سے حشرات خشک موسم میں نہیں رہ سکتے۔ زیادہ تر حشرات نمی والے جگہوں کو پسند کرتے ہیں۔
اس حوالے سے یونیورسٹی آف پشاور کے انورمنٹل ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر نفیس نے تفصیل سے بتایا کہ اگر دیکھا جائے تو گرمی کے طویل دورانیے سے مچھر، مکھیاں اور دیگر موسمی حشرات کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ حشرات ایسے ہیں جو فصلوں پر حملہ کرتے ہیں۔
جیسا کہ کپاس اور گندم کو نقصان پہنچانے والے حشرات کے علاقے وسیع ہو رہے ہیں۔ جس کی تدارک کیلئے ہم بڑے پیمانے پر زرعی سپرے کا استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح کرنے پر نقصان پہنچانے والے حشرات تو کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ مفید حشرات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی بیماریاں پھیلانے والے حشرات سرد درجہ حرارت رکھنے والے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جس سے وہاں نئی قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جیسا کہ اس 2025 میں ڈینگی کی بیماری سوات میں بھی دیکھی گئی۔ اس سے مفید حشرات یا سرد علاقوں میں ایکو سسٹم چلانے والے حشرات کم ہو رہے ہیں، جبکہ بیماریاں پھیلانے والے اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والے حشرات کی آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان تبدیلیوں کے نتیجے میں صحت عامہ اور غذائی تحفظ کے نئے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
کچھ علاقوں میں حشرات کی آبادی کیوں کم ہو رہی ہے اور نئی اقسام کہاں نظر آ رہی ہیں؟
ڈاکٹر کے مطابق کچھ حشرات کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن بہت سے حشرات ایسے ہیں جو معتدل درجہ حرارت میں رہ سکتے ہیں، ان کی زندگی مشکل میں آجاتی ہے۔ مثلآ شہد کی مکھی کی مثال لیجئے۔ شہد کی مکھی کو ہر وقت تازہ پانی چاھیئے۔ درجہ حرارت نہ بہت زیادہ ہو اور نہ بہت کم۔ اس لئے دیکھا جائے تو شہد کی مکھیاں مسلسل تناؤ کا شکار ہیں۔
اس طرح حشرات اپنے ایک خاص ہیبیٹاٹ یعنی رہائش گاہ ہوتی ہے۔ موسمیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سے یہ رہائش گاہیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس میں بڑھتی ہوئی آبادی کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ جس کی وجہ سے سبزہ میں کمی اور پانی اور ہوا کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس سے شہد کی مکھی کے علاوہ تتلیاں، ڈریگن فلائی، جگنو جیسے حشرات میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔

حشرات کی کمی پاکستان کی غذائی پیداوار اور معیشت کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے؟
حشرات کی کمی کا پاکستان کی غذائی پیداوار اور معیشت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ اس کے کئی وجوہات ہیں۔ اس میں سب سے اہم پولینیشن (Pollination) ہے۔ شہد کی مکھیوں کی کمی کی وجہ سے پھل دار درخت (آم، سیب، خربوزہ) کی پیداوار میں 40-90% تک کمی آئی ہے۔ اس سے کئی پھلوں اور سبزیوں کی برآمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جس میں کینو، آم قابل ذکر ہیں۔
مفید حشرات کی کمی سے خوراک کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی ہے۔ جس میں گندم، چاول اور دالیں بھی پولینیشن پر انحصار کرتی ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے باغات کی سالانہ اوسط پیداوار میں 25-40% تک کمی کا خدشہ ہے۔
پاکستان کی GDP کا 18.5% زرعی شعبہ سے وابستہ ہے۔ جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کے جی ڈی پی میں اوسطاً پانچ فیصد سے دس فیصد تک کمی کی پیشنگوئی ہے۔ جس کا سب سے بڑا اثر زراعی اجناس، پھل اور سبزیوں پر پڑے گا۔
.jpeg)
جس سے لاکھوں کسانوں اور مزدوروں کے روزگار متاثر ہوں گے اور دیہی علاقوں میں غربت میں اضافہ متوقع ہے۔ حشرات کی کمی پاکستان کے لیے محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سنگین معاشی اور غذائی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ "پروفیسر ڈاکٹر نفیس نے کہا۔
پاکستان میں حشرات کی کون سی مقامی اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور کیوں؟
پروفیسر نفیس نے بتایا کہ پاکستان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار مقامی حشرات شدید خطرے سے دوچار ہیں، ہمالیائی پینڈا یعنی تتلیاں اور پتنگے جس میں پاکستان زمردی تتلی، پہاڑی شہد کی مکھی، بیگس اور دیگر مفید حشرات خطرے سے دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی گولڈن لیڈی برڈ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
مخصوص جغرافیائی علاقوں کے حشرات پر اثرات
پہاڑی علاقے (شمالی پاکستان)
· ہمالیائی تتلیوں کی کئی اقسام: درجہ حرارت بڑھنے سے بلند علاقوں میں محدود ہوتی جا رہی ہیں۔
پہاڑی چیونٹیاں: سیاحتی دباؤ اور تعمیراتی سرگرمیوں سے متاثر
خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں میں مقامی چیونٹیاں اور دیمک جو آب و ہوا میں تبدیلی اور قحط سالی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مٹی کے حشرات زیادہ تر کیمیائی کھادوں اور زمینی کٹاؤ سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ہجرتی پرندوں کی تعداد میں کمی کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟
ڈاکٹر نفیس نے ہجرتی پرندوں کی تعداد کی کمی کے حوالے سے بتایا کہ یہ پرندے حشرات کو خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لہذا حشرات میں کمی کی وجہ سے ان پرندوں کو خوراک کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن ہجرت کرنے والے پرندوں پر بھی موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی آلودگی، زہریلے ادویات کا بیدریغ استعمال، اور بڑے پیمانے پر غیر قانونی شکار ہے۔
.jpeg)
پاکستان میں حشرات کے تحفظ اور تحقیق کے لیے کن پالیسی تبدیلیوں کی فوری ضرورت ہے؟
حشرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو مندرجہ ذیل اقدامات پر غور کرنا چاہیئے۔
حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے علاقوں پر نظر ثانی اور اس سے متعلقہ قوانین میں مناسب تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ جس سے وہاں کے مخصوص حشرات کے لیے محفوظ زون بنائے جائیں۔
قومی سطح پر تحقیقی سروے اور مانیٹرنگ کی جائے۔ حشرات کی آبادی اور اس میں کمی کے رجحانات پر مسلسل نظر رکھی جائے۔
عوامی اور کاشتکاروں میں بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ تاکہ زرعی ادویات میں مناسب کمی لائی جائے اور حشرات کی اہمیت سے ان کو آگاہ کیا جائے۔
طویل المدتی حکمت عملی
پائیدار زراعت پر کام کیا جائے۔ مصنوعی کھاد اور ادویات پر انحصار کم کر کے نامیاتی کاشتکاری کو فروغ دیا جائے۔
نئی ہاؤسنگ سکیم اور شہری علاقوں میں سبزے کا مناسب بندوست کیا جائے۔ شہروں میں حشرات کے دوستانہ ماحول کی تخلیق پر زور دیا جائے۔تحقیق و ترقی پر کام کیا جائے۔ حشرات کی مقامی اقسام کے تحفظ پر سائنسی تحقیق کر کے ان کی لسٹیں تیار کی جائے۔
معدوم ہوتی ہوئی مقامی اقسام کا تحفظ نہ صرف ماحولیاتی توازن کے لیے ضروری ہے بلکہ پاکستان کی زرعی معیشت اور غذائی تحفظ کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین نے مل کر ایک گروپ بنایا ہے جو اس بات پر کام کرے گا کہ حشرات (کیڑے مکوڑے) ماحول، تجارت، انسانی صحت اور موسمیاتی تبدیلی میں کتنی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس خبر نے پاکستان کے لیے بھی اہم سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ بار بار آنے والے سیلاب، خشک سالی اور شدید گرمی کی لہر کے دوران، موسمیاتی تبدیلی ہمارے ماحول کے ان اہم مگر نظرانداز کئے جانے والے حصوں یعنی حشرات کو کس طرح متاثر کر رہی ہے؟ اور اس کا ہماری غذائی حفاظت اور صحت پر کیا اثر ہو رہا ہے؟ جو آنے والے وقتوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔