وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغان طالبان ایک جانب پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہیں اور دوسری جانب مذاکرات کی بات کرتے ہیں، لیکن دھمکی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اگر کسی ملک کی جانب سے حملہ کیا جائے تو دفاع کا حق حاصل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق افغان طالبان کو اگر واقعی اپنی دھمکیوں پر عمل کا یقین ہے تو پہلے وہ دھمکی پوری کرلیں، بعد میں مذاکرات کی بات کریں۔
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ پاکستان نے کسی افغان شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ صرف دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین مختلف دہشتگرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان وزیر خارجہ امیر متقی کے بیانات پر بھلا کون یقین کرے گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے دفاعی اقدامات میں شہریوں کو نقصان سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سرحدوں کی حفاظت وفاق کی ذمہ داری ہے، صوبوں کی نہیں۔ افغان مہاجرین کے انخلا کا معاملہ بھی وفاقی دائرہ کار میں آتا ہے، لہٰذا جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں، انہیں واپس بھجوانے کا حق پاکستان کو حاصل ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کو ایسے ہی محفوظ بنائے گا جیسے دنیا کے خود مختار ممالک کرتی ہیں، اور اب وقت آگیا ہے کہ جو افغان پناہ گزین برسوں سے یہاں مقیم ہیں، انہیں واپس اپنے ملک جانا چاہیے۔