ایزل خان
آج کل ایک ڈرامہ ٹیلی ویژن پر نشر ہو رہا ہے جس کا نام ہے "کیس نمبر 9"۔ بظاہر یہ ایک عام کرائم سٹوری معلوم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ہمارے معاشرتی رویوں اور انصاف کے نظام پر ایک گہری چوٹ ہے۔ اس ڈرامے میں دکھایا جا رہا ہے کہ اگر ریپ کے بعد متاثرہ خاتون نہا لے تو ایک اہم ثبوت مٹ جاتا ہے، اور اگر کپڑے دھو لے تو دوسرا ثبوت ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں، اور یہی لاعلمی اکثر انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
ڈرامے میں دکھائے گئے مناظر محض تفریح نہیں بلکہ حقیقت کے قریب وہ آئینہ ہیں جو ہمیں اپنے نظام، میڈیا، اور خود اپنی بےحسی کا چہرہ دکھاتے ہیں۔ جب میں صبا قمر کی ایکٹنگ دیکھتی ہوں کہ کس طرح اس نے ہر پوائنٹ اور معاشرے کے ہر پہلو کا کردار بخوبی نبھایا ہے، تو سوچتی ہوں کہ پتہ نہیں کتنی لڑکیاں اس کرب سے گزری ہوں گی؟ کتنی لڑکیوں نے انصاف کے لیے مدد کی اپیل کی ہوگی؟ اور کتنی کو گھر سے یہ کہا گیا ہوگا کہ "خاموش ہو جاؤ، لوگ کیا کہیں گے؟"
ہم نے اپنی بچیوں کو "شرم" کے نام پر اس موضوع پر بات کرنا نہیں سکھایا۔ ہمارے تعلیمی نظام میں اس موضوع پر بات کرنا ممنوع ہے، اور میڈیا بھی زیادہ تر گلیمر اور تفریح دکھاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ڈرامے واقعی عوام کو اصل مسائل پر شعور دینے کا کردار ادا کر رہے ہیں؟ یا پھر وہ اب بھی صرف ساس بہو، عشق و محبت، اور انتقام کی کہانیوں میں الجھے ہوئے ہیں؟
ماضی میں ہمارے ڈرامے معاشرتی اصلاح کا ذریعہ ہوتے تھے، جو سوچنے اور آنکھیں کھولنے پر مجبور کرتے تھے۔ مگر آج کا دور بدل گیا ہے، اب زیادہ تر ڈرامے ریٹنگ اور گلیمر کی دوڑ میں انسانی احساسات اور سماجی مسائل کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔ اسی لیے جب "کیس نمبر 9" جیسے ڈرامے سامنے آتے ہیں، تو وہ امید جگاتے ہیں کہ شاید اب بھی تبدیلی ممکن ہے۔
ہماری سوسائٹی میں ریپ اور ہراسگی جیسے موضوعات پر بات کرنا اب بھی شرمناک سمجھا جاتا ہے۔ والدین بچوں کو "گڈ ٹچ" اور "بیڈ ٹچ" کے بارے میں نہیں بتاتے، اور سکولوں میں بھی یہ موضوع ممنوع ہے۔ نتیجتاً بچے لاعلمی میں ایسے حالات کا سامنا کرتے ہیں جن میں وہ خود کو محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ ہم اپنے بچوں کو ہر مضمون کی تعلیم دیتے ہیں، مگر اپنی حفاظت کی نہیں۔ کیا یہ ہماری تربیت کا سب سے بڑا خلا نہیں؟
خاموشی ظلم کو طاقت دیتی ہے۔ جب والدین بات نہیں کرتے، اسکول آگاہی نہیں دیتے، اور میڈیا صرف تفریح دکھاتا ہے، تو مجرم مضبوط ہو جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ متاثرہ شخص شرم محسوس کرے گا، لوگ الزام لگائیں گے، اور ثبوت مٹ جائیں گے۔
"کیس نمبر 9" ہمیں سکھاتا ہے کہ ثبوت مٹنے سے انصاف مر جاتا ہے۔ اگر متاثرہ فرد فوری طور پر ہسپتال جائے اور شواہد محفوظ کرائے تو کیس مضبوط بنتا ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔ پولیس، میڈیکل اور قانونی نظام کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے باعث کئی کیسز بند ہو جاتے ہیں۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ تفریح کے ساتھ تربیت کو بھی جگہ دے۔ اگر ہر ڈرامہ خواتین کے حقوق، بچوں کی حفاظت یا سماجی انصاف پر ایک چھوٹا سا پیغام دے تو معاشرتی سوچ بدل سکتی ہے۔ اسی طرح اسکولوں میں چائلڈ سیفٹی ایجوکیشن کو نصاب کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ بچوں کو یہ سمجھایا جائے کہ اگر کوئی غلط لمس کرے تو فوراً والدین یا استاد کو بتائیں۔
والدین کو بھی گھروں میں کھلے دل سے گفتگو کرنی چاہیے۔ قانونی اور طبی اداروں کو آگاہی مہمات شروع کرنی چاہئیں تاکہ لوگ جان سکیں کہ ایسے واقعات میں کیا فوری اقدامات کرنے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع کو مثبت انداز میں اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
آخر میں سوال وہی ہے جو ڈرامے کے اختتام پر ذہنوں میں گونجتا ہے
ہم بطور معاشرہ یہ خاموشی کب توڑیں گے؟
کیا ہم اپنے بچوں کو تحفظ دینے، خواتین کو انصاف دلانے، اور مظلوم کو بولنے کا حوصلہ دینے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم اب بھی خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات بدلیں،م تفریح کے ساتھ شعور، کہانی کے ساتھ سبق، اور ڈرامے کے ساتھ حقیقت کو جگہ دیں۔ کیونکہ اگر ہم نے اپنی خاموشی توڑ دی، تو وہ دن دور نہیں جب کسی ماں کی آنکھ اشک بار نہیں ہوگی، اور ہم واقعی ایک محفوظ معاشرے کا حصہ بن جائیں گے۔