خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں کو منصوبہ بندی کے تحت جگہ دی گئی، گورننس کو کمزور کیا گیا، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پشاور میں پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج بھی خیبرپختونخوا کے بہادر عوام اپنے خون سے بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دہشتگردوں کی آماجگاہ نہیں بننے دینا چاہیے، وہاں موجود بھارتی پراکسیز پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے سرگرم ہیں، اس کے شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق گزشتہ دو سال میں افغانستان سے دراندازی کرتے ہوئے 135 خارجی دہشتگرد مارے گئے جبکہ 30 افغان شہری خودکش حملوں میں ملوث تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغان سرزمین کو بھارت پاکستان کے خلاف بیس کیمپ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے دہشتگردی کے تسلسل کی پانچ بنیادی وجوہات بھی بیان کیں:
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عملدرآمد ناگزیر ہے، تاہم اس پر سیاسی بیانات اور ذاتی مفادات غالب آ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے مقدمات میں عدالتی کارروائیاں انتہائی سست ہیں، خیبرپختونخوا میں رواں سال انسداد دہشتگردی عدالتوں سے کسی دہشت گرد کو سزا نہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ منشیات کے 10 ہزار سے زائد کیسز میں صرف 679 مجرموں کو سزا ملی جبکہ غیر قانونی اسلحے کے 33 ہزار کیسز میں صرف 6 ہزار 945 کو سزا دی گئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔ پاک فوج اور سیکیورٹی ادارے روزانہ کی بنیاد پر دہشتگردوں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کر رہے ہیں تاکہ ملک میں پائیدار امن قائم کیا جا سکے۔
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ملک میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کئے گئے فیصلوں پر عمل نہ ہونے سے دہشتگردوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں، جبکہ ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرنا شہداء کے خون کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا آپ کو یہ آوازیں نہیں آتیں کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں؟ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے؟ اگر بات چیت ہی حل ہوتی تو جب بھارت نے 6 اور 7 مئی کو پاکستان پر میزائل مارے، معصوم بچوں، خواتین، مدرسوں اور مساجد کو نشانہ بنایا، تو کسی نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بات چیت کرلیتے ہیں؟
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت ہوتی تو نہ کوئی غزوہ ہوتا، نہ جنگیں ہوتیں، نہ مہمات۔ بدر کے میدان کو یاد کریں جہاں سرورِ کونین ﷺ کے سامنے اپنے قبیلے، خاندان اور رشتہ دار کھڑے تھے، مگر انہوں نے اس وقت بھی حق کے لیے میدان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے دہشتگردی کے خلاف متفقہ قومی بیانیہ بنانے کے بجائے گمراہ کن بیانیے تشکیل دیے گئے۔ سیاستدانوں اور صوبائی حکومتوں نے خود فیصلہ کیا تھا کہ دہشتگردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو توڑا جائے، غیرقانونی کاروبار، منشیات، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ناسور کو ختم کیا جائے، لیکن جب قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائیاں کرتے ہیں تو ان عناصر کی پشت پناہی کے لیے مختلف سیاسی و مقامی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ سیاستدانوں اور حکومتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ دہشتگردی کے مقدمات کے لیے عدالتی نظام کو مضبوط بنایا جائے، لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اگست 2025 تک خیبرپختونخوا کی انسدادِ دہشت گردی عدالتوں سے کسی دہشتگرد کو سزا نہیں ہوئی۔ صوبے میں 34 مقدمات زیرِ سماعت ہیں، 2878 مقدمات تین سال سے کم عرصے سے التوا کا شکار ہیں جبکہ 1706 مقدمات تین سال سے زیادہ عرصے سے زیرِ التوا ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی اور غیرقانونی کاروبار کے گٹھ جوڑ نے نظامِ عدل کو کمزور کیا ہے۔ منشیات کے 10 ہزار 87 کیسز میں صرف 679 مجرموں کو سزا ملی، جبکہ غیرقانونی اسلحے کے 33 ہزار 389 مقدمات میں صرف 6 ہزار 945 مجرموں کو سزا ہوئی۔ یہ اعداد و شمار دہشت گردی کے خلاف عدالتی عمل کی ناکامی ظاہر کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کو مضبوط کیا جائے گا، لیکن اب بھی سی ٹی ڈی کی آپریشنل صلاحیت صرف 3200 اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خیبرپختونخوا کی بہادر پولیس اور سی ٹی ڈی کو سلام پیش کرتے ہیں، مگر موجودہ صورتحال میں یہ افرادی قوت ناکافی ہے۔
ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کے اندراج اور اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا تھا، مگر تاحال صوبے میں 4355 یعنی صرف 55 فیصد مدارس کا اندراج مکمل ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اندراج ہی مکمل نہیں ہوا تو نصاب کی یکسانیت اور نگرانی جیسے اہم اقدامات کیسے ممکن ہیں؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ پاکستان کی سلامتی اور امن کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد، عدالتی اصلاحات، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تقویت وقت کی اہم ضرورت ہے۔