شاہین آفریدی
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اکتوبر کا مہینہ چھاتی کے سرطان (Breast Cancer) کے بارے میں آگاہی کے لیے منایا جاتا ہے۔ اس مہینے کا مقصد اس خاموش مگر جان لیوا بیماری کے بارے میں لوگوں کو شعور دینا، بروقت تشخیص کو ممکن بنانا اور علاج تک رسائی کو بہتر بنانا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت WHO کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً دو اعشاریہ تین (2.3) ملین افراد چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً ستر فیصد مریض پہلے مرحلے پر ہی اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ اس مرض کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کی ابتدائی علامات اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہیں یا سماجی شرم و جھجھک کے باعث چھپائی جاتی ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق تشخیص میں تاخیر ہی اموات میں اضافے کا اصلی وجہ ہے۔
پشاور کے شوکت خانم ہسپتال میں کنسلٹنٹ میڈیکل آنکولوجسٹ ڈاکٹر ماریہ قبطیہ نے بتایا کہ پاکستان میں ہر 9 میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر سے متاثر ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں یہ بیماری بہت عام ہے۔
“ اس بیماری کے علامات بہت آسان ہے، اگر خواتین کو چھاتی میں گلٹی یا سختی محسوس ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرے۔ اس بیماری سے بچنے کا بہت آسان طریقہ ہے۔ خواتین کو وزن کا خیال رکھنا چاہئیے، جنک یا فاسٹ فوڈ کا استعمال کم کرے۔ ورزش پر زیادہ دھیان دے اور اس بیماری کی صورت میں فوری علاج شروع کرے کیونکہ سرطان اب قابل علاج بیماری ہے”۔
بین الاقوامی ریسرچ کے مطابق صرف پاکستان میں سال 2018 کے دوران 34 ہزار سے زائد خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہوئیں۔ ماہرین کے مطابق یہ بیماری چار مراحل پر مشتمل ہوتی ہے، مگر پاکستان میں زیادہ تر کیسز تیسرے یا آخری مرحلے میں رپورٹ ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ماریہ نے بتایا کہ “ہمارے زیادہ تر مریض لاعلمی یا شرم کے باعث بروقت چیک اپ نہیں کرواتے۔ جب وہ آتے ہیں تو بیماری کافی پھیل چکی ہوتی ہے، جس سے علاج مشکل ہوجاتا ہے۔”
دوسری جانب پشاور کے ہسپتالوں میں اس مہینے کے آغاز سے ہی آگاہی مہم تیز کردی گئی ہے۔ ہسپتال کی عمارتوں پر بینرز اور آگاہی پوسٹرز لگائے گئے ہیں، جبکہ افغانستان سے آنے والے مریضوں کے لیے خصوصی کاونٹر بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ انہیں علاج اور مشورے کی بہتر سہولت فراہم کی جا سکے۔
ڈاکٹر خورشید خان، جو پشاور جنرل ہسپتال میں چھاتی کے سرطان کے ماہر ہیں، بتاتے ہیں “پاکستان اور افغانستان میں اس بیماری کو چھپایا جاتا ہے یا لاعلمی کے باعث خواتین اس کے ابتدائی مرحلے میں تشخیص نہیں کرواتیں۔ جب وہ ہسپتال پہنچتی ہیں تو اکثر بیماری تیسرے یا چوتھے مرحلے میں داخل ہوچکی ہوتی ہے۔”
ماہرین صحت کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں چھاتی کے سرطان کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر 9 میں سے 1 خاتون اس مرض سے متاثر ہے۔ اس بیماری کے پھیلاؤ میں سماجی رویے، ماحولیاتی تبدیلیاں، ناقص غذائی عادات، اور آگاہی کی کمی بنیادی عوامل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
شوکت خانم ہسپتال پشاور کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر عامر رحمان فاروقی نے بتایا کہ “یہ صرف بیماری نہیں بلکہ سماجی رویوں کا المیہ بھی ہے۔ جب تک خواتین کو اعتماد اور سہولت نہیں دی جائے گی، ہم اس شرح کو کم نہیں کرسکتے۔”
احتیاطی تدابیر
ماہرین کے مطابق چھاتی کے سرطان کی بروقت تشخیص سے زندگی بچانے کے امکانات 90 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ:
• خواتین ماہانہ خود معائنہ (Self-Examination) کریں۔
• 40 سال سے زائد عمر کی خواتین ہر سال میموگرافی ٹیسٹ کروائیں۔
• صحت مند طرزِ زندگی اپنائیں، جسمانی سرگرمی بڑھائیں اور متوازن غذا لیں۔
دنیا بھر میں 1991 سے اکتوبر کا مہینہ بریسٹ کینسر آگاہی ماہ کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس عالمی مہم کا مقصد نہ صرف اس مرض کے بارے میں معلومات عام کرنا ہے بلکہ اس عزم کو بھی مضبوط بنانا ہے کہ سال 2040 تک چھاتی کے سرطان سے اموات کی شرح میں واضح کمی لائی جائے۔
مختلف ممالک میں سرکاری اور نجی ادارے، یونیورسٹیاں،ہسپتال اور فلاحی تنظیمیں اس ماہ کے دوران آگاہی واکس، سیمینارز، اسکریننگ کیمپ، اور خصوصی میڈیا مہمات کا اہتمام کرتی ہیں تاکہ خواتین میں بروقت تشخیص کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔