ام کلثوم
شادی زندگی کا ایک نیا موڑ ہوتی ہے جو نہ صرف دو افراد کو بلکہ دو خاندانوں کو بھی جوڑتی ہے۔ محبت، ہم آہنگی، اور شراکت داری پر مبنی اس بندھن سے زندگی میں استحکام آتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ استحکام دونوں میاں بیوی کے لیے یکساں خوشی اور سکون لاتا ہے؟ یا یہ کہ شادی کے بعد عورت اور مرد کی زندگیوں میں تبدیلی کی نوعیت مختلف ہوتی ہے؟ اس تحریر میں ہم جائزہ لیں گے کہ شادی کے بعد کون زیادہ مطمئن رہتا ہے اور موبائل فون جیسے ذاتی آلات کا استعمال کس طرح متاثر ہوتا ہے، خصوصاً خواتین کے لیے۔
بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی Harvard University کی تحقیق (2022) اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ شادی شدہ مردوں کی خوشی میں شادی کے بعد اوسطاً 15 فیصد اضافہ ہوتا ہے، جبکہ خواتین کی خوشی کی سطح میں صرف 5 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شادی کے بعد مرد عمومی طور پر زیادہ مطمئن محسوس کرتے ہیں، جبکہ خواتین کی جذباتی اور جسمانی ذمہ داریاں بڑھنے کے باعث ان کی ذاتی خوشی محدود ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ فرق خاصا واضح نظر آتا ہے۔
Gallup Pakistan کے 2021 کے ایک سروے کے مطابق، پاکستانی خواتین میں سے 40 فیصد نے شادی کے بعد کہا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی سے "کم مطمئن" ہیں، جبکہ مردوں میں یہ شرح صرف 18 فیصد تھی۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں موبائل فون ہر فرد کی زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے، لیکن شادی کے بعد اس کے استعمال میں بھی صنفی فرق سامنے آتا ہے۔ Pew Research Center کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، شادی کے بعد خواتین روزانہ اوسطاً 1.5 گھنٹے موبائل فون اپنے لیے استعمال کرتی ہیں، جبکہ مرد تقریباً 2.7 گھنٹے تک ذاتی استعمال کرتے ہیں۔ یہی رجحان پاکستانی شہری زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ 2023 میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کیے گئے Urban Households Survey میں یہ بات سامنے آئی کہ شادی شدہ خواتین روزانہ تقریباً 35 سے 40 منٹ کم وقت موبائل فون پر گزارتی ہیں۔ مردوں کے استعمال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔
یہ فرق صرف موبائل کے استعمال یا جذباتی اطمینان تک محدود نہیں بلکہ گھریلو ذمہ داریوں میں بھی واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ UN Women کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں شادی شدہ خواتین روزانہ اوسطاً 6 گھنٹے گھریلو کام کاج میں مصروف رہتی ہیں، جبکہ مرد صرف 1.5 گھنٹے دیتے ہیں۔ یہ اضافی گھریلو ذمہ داریاں خواتین کے لیے ذاتی وقت اور ذہنی سکون کے مواقع محدود کر دیتی ہیں، جو ان کی خوشی پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔
عام زندگی کے تجربات بھی ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہیں۔ سحر، 32 سالہ گھریلو خاتون بتاتی ہیں کہ "شادی سے پہلے میں اپنی سہیلیوں سے گھنٹوں باتیں کرتی، سوشل میڈیا پر ایکٹیو رہتی۔ اب موبائل صرف سکول اپڈیٹس، بچوں کی تصاویر، اور کھانے کی ترکیبوں تک محدود ہو چکا ہے۔" اس کے برعکس، عثمان، 35 سالہ بینکر کا کہنا ہے کہ “شادی کے بعد مصروفیات بڑھیں ضرور، مگر موبائل کا استعمال تقریباً وہی ہے۔ رات کو فارغ ہو کر ویڈیوز دیکھ لیتا ہوں یا دوستوں سے چیٹ کر لیتا ہوں۔”
ماہرینِ نفسیات بھی اس فرق کی گہرائی کو واضح کرتے ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر رابعہ اشفاق کے مطابق، “خواتین شادی کے بعد جذباتی اور جسمانی طور پر زیادہ انویسٹ کرتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا ذاتی وقت کم ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف، مردوں کی روزمرہ زندگی میں شادی کے بعد کم تبدیلی آتی ہے، اس لیے ان کی خوشی کا لیول زیادہ برقرار رہتا ہے۔”
یہ تمام مشاہدات اور تحقیقاتی نتائج مل کر اس نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگرچہ شادی ایک خوبصورت بندھن ہے، مگر ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں مرد اور عورت کی ذمہ داریاں اور آزادی یکساں نہیں ہوتیں۔ جہاں مرد عمومی طور پر اپنی آزادی اور ذاتی وقت کو برقرار رکھتے ہیں، وہیں عورت کو اپنے جذبات، وقت اور سرگرمیاں قربان کرنی پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد عمومی طور پر مرد زیادہ مطمئن اور آزاد ہوتے ہیں، جبکہ خواتین گھریلو ذمہ داریوں اور محدود ذاتی وقت کے باعث زیادہ دباؤ اور جذباتی تھکن کا شکار ہوتی ہیں۔
اس فرق کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی گھریلو ذمہ داریاں بانٹیں تاکہ دونوں کو ذاتی وقت میسر ہو۔ خواتین کو سپورٹ سسٹم مہیا کیا جانا چاہیے ، جیسے والدین، سہیلیاں، یا گھریلو مدد ۔ تاکہ وہ خود کو نظرانداز نہ کریں۔ معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جہاں عورت کی قربانی کو لازمی فرض نہ سمجھا جائے بلکہ اس کی خوشی اور آزادی کو بھی اہمیت دی جائے۔
آخرکار، خوشی صرف شادی کے بندھن سے نہیں آتی بلکہ اس میں برابری، سمجھوتہ اور ایک دوسرے کی قدر کرنے سے جنم لیتی ہے۔ اگر مرد اور عورت ایک دوسرے کے وقت، جذبات اور آزادی کا احترام کریں تو شادی نہ صرف خوشگوار بلکہ متوازن اور دیرپا بھی ہو سکتی ہے۔