ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
مہاجر بھائی یا قانونی خطرہ؟ افغان دوست کو شناختی کارڈ دینے کی کہانی Home / بلاگز /

مہاجر بھائی یا قانونی خطرہ؟ افغان دوست کو شناختی کارڈ دینے کی کہانی

سعدیہ بی بی - 01/10/2025 1259
مہاجر بھائی یا قانونی خطرہ؟ افغان دوست کو شناختی کارڈ  دینے کی کہانی

سعدیہ بی بی

 

 پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی واپسی کاعمل اس وقت ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے غیرقانونی طور پرمقیم افغان شہریوں کو واپس جانے کی ہدایت دی ہے اور اسی سلسلے میں باقاعدہ ڈیڈ لائن بھی مقرر کی گئی ہیں۔ اس پالیسی کے تحت بڑی تعداد میں افغان باشندے اپنے اہلِ خانہ اور سامان کے ساتھ سرحدی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ بہت سے افغان باشندے دہائیوں سے پاکستان میں مقیم تھے اور یہاں پر روزگار، تعلیم اور رہائش کے مواقع حاصل کر رہے تھے، اس لیے واپسی ان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ثابت ہو رہی ہے۔

  

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخ طویل اور پیچیدہ ہے۔ پاکستان نے 1979ء میں سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ یہ سلسلہ مختلف ادوار میں چلتا رہا، حتیٰ کہ 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد مزید بڑی تعداد پاکستان آگئی۔ ان مہاجرین کو قانونی حیثیت دینے کے لیے پاکستان نے (PoR) Card جاری کئے، جو UNHCR (اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین) کے تعاون سے بنائے گئے۔ بعد ازاں کچھ افغان شہریوں کو (ACC) بھی دیا گیا، جو زیادہ تر اُن افغانوں کے لیے تھا جو رجسٹریشن کی ابتدائی سکیم میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔

 

  چار دہائیوں سے زائد عرصے میں لاکھوں افغان شہری پاکستان میں پناہ گزین رہے ہیں۔ کچھ نے یہاں کاروبار شروع کئے، کچھ نے مکانات بنائے اور بہت سے خاندان مکمل طور پر پاکستان کے معاشرے میں ضم ہوگئے۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں حالات نے نیا رخ اختیار کیا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے پالیسی کے تحت افغان شہریوں کی واپسی کا عمل تیز کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں افغان باشندے اپنے گھروں، کاروباروں اور برسوں کے بنائے ہوئے تعلقات کو پیچھے چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور ہیں۔

 

اس صورتحال نے ایک نیا اور خطرناک مسئلہ بھی پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ کچھ دن پہلے بابا کے ایک پرانے دوست، جو افغانی شہری ہیں، ہمارے گھر کے دروازے پرآئے۔ ان دنوں افغانیوں کے ساتھ مسئلے زیادہ بڑھ گئے تھے، انہوں نے بابا سے کہا کہ مجھے اپنا شناختی کارڈ دے دو تاکہ میں اپنے مسئلے حل کر سکوں۔ بابا نے یہ سن کر انکار کر دیا۔ اس بات پر دونوں کے درمیان تھوڑی تلخ کلامی بھی ہوگئی۔ بابا نے صاف کہا کہ "اگر میں نے تمہیں شناختی کارڈ دیا تو کل کو میرے لیے مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے، میرے اپنے بیوی بچے ہیں، میں ان کو مشکل میں کیسے ڈال سکتا ہوں۔" اور یہ بات وہی ختم ہو گئی۔

 

 پہلے تو میں سمجھی نہیں کہ وہ شناختی کارڈ کیوں مانگ رہے تھے، لیکن جب بابا نے بتایا کہ اکثر افغان باشندے پاکستان میں رہنے کے لیے پاکستانی دوستوں یا جاننے والوں سے ان کا شناختی کارڈ یا سم استعمال کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ تاکہ وہ یہاں اپنی قانونی حیثیت برقرار رکھ سکیں، کیونکہ بہت سے لوگوں کے پاس یا تو ویزہ نہیں ہوتا یا ان کے (پی او آر، اے سی سی)  کی مدت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ ان کے کاروبار، جائیداد اور بینک اکاؤنٹ زیادہ تر شناختی کارڈ کے بغیر رجسٹر نہیں ہوتے، اس لیے وہ کسی پاکستانی کے کارڈ پر یہ سب کچھ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

اسی طرح موبائل سم، رہائش کے کاغذات، سفر، بچوں کی سکول رجسٹریشن اور علاج جیسی بنیادی سہولتیں بھی شناختی کارڈ بغیرکے مشکل ہو جاتی ہیں۔ دستاویزات کی مدت ختم ہونے یا حکومت کے نئے اقدامات کے باعث بہت سے افغان باشندے اب "غیر قانونی مقیم" سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان میں رہنے کا راستہ تلاش کریں۔

 

بظاہر اب یہ ایک چھوٹی سی مدد لگتی ہے، لیکن درحقیقت یہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ دونوں فریقوں کے لیے سنگین مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ پاکستانی شہریوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناختی دستاویزات کی حفاظت کریں اور کسی کو غیر قانونی طور پر استعمال نہ کرنے دیں۔ افغان بھائیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانونی اور درست راستوں سے اپنی مشکلات حل کریں۔ مدد ضرور کریں، لیکن صرف وہی مدد جو قانون اور شریعت دونوں کے مطابق ہو۔ یہی اصل دوستی اور بھائی چارہ ہے۔

تازہ ترین