ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
پشاور: پانچ صحافیوں کو سائبر کرائم ایجنسی کے نوٹس، صحافتی تنظیموں کا ردعمل Home / جرائم,عوام کی آواز /

پشاور: پانچ صحافیوں کو سائبر کرائم ایجنسی کے نوٹس، صحافتی تنظیموں کا ردعمل

پشاور: پانچ صحافیوں کو سائبر کرائم ایجنسی کے نوٹس، صحافتی تنظیموں کا ردعمل

رفاقت اللہ رزڑوال
 

نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) پشاور نے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز سے وابستہ پانچ صحافیوں کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر کمشنر پشاور ڈویژن ریاض محسود کے خلاف جھوٹا اور ہتک آمیز مواد پھیلانے کے الزام میں طلبی کے نوٹسز جاری کر دیے گئے۔


این سی سی آئی اے کی جانب سے 24 ستمبر کو جاری نوٹس کے مطابق شکایت

 کمشنر پشاور ڈویژن کے دفتر سے دائر کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر منظم مہم کے ذریعے کمشنر پر بدانتظامی اور کرپشن کے الزامات لگائے گئے جو "بے بنیاد اور گمراہ کن" ہیں۔ 

 

ادارے کا مؤقف ہے کہ یہ مواد کردار کشی اور عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش ہے، جو پیکا ایکٹ 2016 اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
 

نوٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ ساجد ٹکر، سلمان یوسفزئی، عقیل یوسفزئی، ظاہر شاہ شیرازی اور خاتون صحافی انعم ملک 30 ستمبر کو پشاور میں این سی سی آئی اے کے دفتر میں حاضر ہو کر اپنا مؤقف پیش کرنا ہوگا۔ غیرحاضری کی صورت میں یکطرفہ کارروائی کے ساتھ ساتھ جائیداد یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس ضبط کرنے جیسے اقدامات بھی کئے  جا سکتے ہیں۔
 

دوسری جانب، خیبرپختونخوا یونین آف جرنلسٹس (کے ایچ یو جے) نے ان نوٹسز کو آزادی اظہار رائے پر قدغن قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کی ہے۔ صدر کے ایچ یو جے کاشف الدین سید نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا 'ان نوٹسز میں یہ وضاحت تک شامل نہیں کہ صحافیوں نے کون سا قانون توڑا ہے۔ یہ نوٹس صرف دباؤ ڈالنے اور بلیک میل کرنے کا ہتھکنڈا ہے تاکہ صحافی تنقید اور سوالات اٹھانے سے باز رہیں'۔
 

انہوں نے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل صوبے کے مختلف صحافیوں کو بھی سوشل میڈیا پر تنقیدی مواد شائع کرنے پر نوٹسز موصول ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق، 13 اگست کو تحقیقاتی صحافی عرفان خان کو بھی ایک ٹویٹ پر نوٹس ملا تھا۔
 

پاکستان میں پیکا ایکٹ 2016 کو آن لائن جرائم کی روک تھام کیلئے متعارف کرایا گیا تھا، تاہم 28 جنوری 2025 کو اس میں ترامیم کی گئیں جن کے تحت "آن لائن جعلی خبریں" پھیلانے پر تین سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا رکھی گئی۔
 

صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ قانون "اختلافی آوازوں کو دبانے اور ناقدین کے خلاف استعمال ہونے والا ہتھیار" بن گیا ہے۔
 

فریڈم نیٹ ورک، جو پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کیلئے کام کرتی ہے، اپنی سالانہ رپورٹ میں دعویٰ کر چکی ہے کہ صرف فروری سے اپریل 2025 کے دوران 8 صحافیوں کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ تنظیم کے مطابق، یہ رجحان آزادی اظہار رائے پر سنجیدہ حملہ ہے۔
 

تاہم حکومت کے وزراء اس قانون کو 'آن لائن جعلی خبروں کی روک تھام میں موثر کردار ادا کرنے والا قانون سمجھتی ہے'، مگر کے ایچ یو جے کے صدر کاشف الدین سید کہتے ہیں کہ صحافی خود جعلی خبروں کی اشاعت کے خلاف ہیں، لیکن ان کے مطابق، "نام نہاد قوانین کے ذریعے صحافیوں کی تنقیدی آوازوں کو دبانا اور اظہار رائے پر قدغن لگانا ناقابل قبول ہے۔ ہم صحافیوں کے خلاف نوٹسز کو عدالت میں چیلنج کریں گے اور این سی سی آئی اے سے وضاحت بھی مانگیں گے کہ ہم پر اصل الزام کیا ہے۔

تازہ ترین