ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
کیا صرف عبادات کے ذریعے ہم آنے والی آفات کو روک سکتے ہیں؟ Home / بلاگز /

کیا صرف عبادات کے ذریعے ہم آنے والی آفات کو روک سکتے ہیں؟

سعدیہ بی بی - 24/09/2025 69
کیا صرف عبادات کے ذریعے ہم آنے والی آفات کو روک سکتے ہیں؟

سعدیہ بی بی

 

قدرتی آفات انسان کے اختیار سے باہر ہیں۔ کبھی موسلا دھار بارش کی وجہ سے زمین پانی سے بھر جاتی ہے ، تو کبھی زلزلے آتے ہیں تو بستیاں ہل کر رہ جاتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ انسان چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، یہ سب کچھ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل طاقت صرف اللہ کے پاس ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل اور شعور جیسی نعمتیں بھی عطا کی ہیں تاکہ ہم اپنے آپ کو ان آفات کے نقصانات سے محفوظ بنا سکیں۔ لیکن ہم اکثر صرف عبادات اور دعاؤں پر اکتفا کر لیتے ہیں اور عملی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔

 

 یہی وہ پہلو ہے جس پر سوچنا اور عمل کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے، تاکہ انسان سبق سیکھے اور اپنے طرز عمل پر غور کریں۔ مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی ہرسال انہی آفات کا شکار ہوتے ہیں اور پھر اگلے سال اسی طرح کی خبر سنتے ہیں۔ نہ ہی ہماری حکومت سبق سیکھتی ہے اور نہ ہی عوام اپنی لاپرواہی چھوڑتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال نئی تباہی، نئی ہلاکتیں اور نئے نقصانات سامنے آتے ہیں۔

 

چندعرصہ پہلے خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں آنے والے سیلاب نے بہت زیادہ تباہی مچائی تھی۔ کئی علاقے پانی میں ڈوب گئے تھے، سینکڑوں گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے اور کھڑی فصلیں پانی میں بہہ کر ضائع ہوئی تھیں۔ درجنوں قیمتی جانیں چلی گئیں تھیں، کئی خاندان اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھے اور بے شمار لوگ زخمی ہوئے تھے۔ مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ اس وقت لوگوں نے کہا تھا کہ اب ہم تیاری کریں گے اور آئندہ کے لیے منصوبہ بندی کریں گے۔

 

مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بونیرایک بار پھر سیلاب کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ لوگ دوبارہ اپنے گھروں سے بے گھر ہو کر آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ جن لوگوں نے بڑی محنت سے اپنے گھر صاف کئے تھے وہ ایک بار پھرمٹی اور گند کے ڈھیر میں بدل گئے تھے۔ یہ حالیہ تباہی نہ صرف جانی نقصان کا باعث بنی تھی بلکہ معاشی طور پر بھی صوبے کو شدید دھچکا لگا تھا، کیونکہ کھیت، مویشی اور روزگار کے ذرائع سب پانی میں بہہ گئے۔

 

اسی طرح پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جب بارش کی بوندوں سے بھیگتا ہے تو خوشی کے بجائے پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ بڑی بڑی سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں۔ گاڑیاں بند پڑجاتی ہیں۔ اربوں روپے کے شہر میں اگر بارش کی چند گھنٹوں کی بوندیں زندگی مفلوج کر دیتی ہیں تو سوچنا چاہیے کہ اصل خرابی کہاں ہے۔ پنجاب کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ راوی کے قریب بڑے بڑے بند بنائے گئے تھے تاکہ سیلابی پانی کو روکا جا سکے۔ لیکن جب ضرورت پڑی تو یہ بند خود ہی ٹوٹ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوری کی پوری سوسائٹیاں پانی میں ڈوب گئیں تھیں۔

 

 ایسے میں ہم مسلمان ہونے کے ناطے بے بسی کے عالم میں صرف اللہ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔ کہیں اجتماعی دعائیں ہو رہی ہوتی ہیں، کہیں آذانیں دی جا رہی ہوتی ہیں، کہیں نفلی روزے رکھے جا رہے ہوتے ہیں اور کہیں صدقہ و خیرات کی جا رہی ہوتی ہے تاکہ ان آفات کو روکا جا سکے۔ یقینا یہ سب اعمال ایمان کا حصہ ہیں اور ان میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سے دعا مانگنا اور اس کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف عبادات کے ذریعے ہم آنے والی آفات کو روک سکتے ہیں؟

 

اسلام میں عبادات ایمان کا بنیادی ستون ہیں۔ نماز، روزہ، دعا، صدقہ اور قربانی ایمان کے تقاضے ہیں۔ لیکن اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں کہ: "میں نے تمہیں عقل دی تاکہ تم سوچو اور سمجھو"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف دعاؤں اور عبادات پر بھروسہ کافی نہیں، بلکہ عقل کو استعمال کرنا، منصوبہ بندی کرنا اور تدابیر اختیار کرنا بھی لازمی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ موسم کی صورتحال کا پتہ ہونے کے باوجود ہم پہلے سے کوئی تیاری نہیں کرتے۔ جب پانی گھروں میں داخل ہو جاتا ہے، جب ہمارا نقصان حد سے زیادہ ہو جاتا ہے، تب ہم جاگتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش ہم نے پہلے سے کچھ انتظام کیا ہوتا۔ دعا کرنا ضروری ہے لیکن عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔

 

قران کریم میں آتا ہے کہ مصر کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں ساتھ دبلی گائیں کھا جاتی ہیں، تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر دی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ سات سال خوشحالی کے ہوں گے، فصلیں وافرمقدارمیں پیدا ہونگی کھانے پینے کی کمی نہ ہوگی لیکن اس کے بعد سات سال قحط اور سختی کے آئیں گے۔

 

 یوسف علیہ السلام نے صرف خواب کی تعبیر نہیں دی بلکہ تدبیر بھی بتائی۔ آپ نے کہا کہ خوشحالی کے ساتھ سالوں میں اناج ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کریں بلکہ گوداموں میں محفوظ کریں تاکہ جب قحط آئے تو لوگ بھوکے نہ مریں۔ یہی ہوا، مصر کے لوگ قحط کے سخت سالوں میں بھی آرام سے زندگی گزارتے رہے کیونکہ انہوں نے پہلے ہی سے تیاری کر لی تھی۔

 

ہمارا ملک 1947ء میں آزاد ہوا۔ اس کے بعد ہم نے کئی بار سیلابوں، زلزلوں اور دیگر آفات کا سامنا کیا۔ 2005 کا زلزلہ آج بھی سب کو یاد ہے جس نے ہزاروں جانیں لے لیں اور لاکھوں کو بے گھر کر دیا تھا۔ اسی طرح 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا جس میں کروڑوں لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان آفات کے بعد مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی؟

 

افسوس کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ ہم ہر بار آفات آنے کے بعد جاگتے ہیں، چند دن شور مچاتے ہیں، امداد بانٹتے اور لیتے ہیں اور پھر سب بھول جاتے ہیں۔ اگر ہم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے یا 2010 کے سیلاب سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہماری حالت مختلف ہوتی۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ایک آفت کے بعد اگلی آفت کے لیے تیار ہوتے، لیکن ہم نے ہمیشہ وقتی جذبات پر گزارا کیا۔

 

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جب سیلاب آتا ہے تو لوگ اسے تماشہ سمجھ کر دیکھنے نکل آتے ہیں۔ گاؤں کے گاؤں خالی ہو رہے ہوتے ہیں، لیکن کچھ نوجوان موبائل کیمرہ اٹھا کر سیلاب کو ریکارڈ کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ ویڈیو وائرل ہوگی تو لوگ واہ واہ کریں گے۔ لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ ویڈیو ان کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں۔ کئی حادثے ایسے ہوئے ہیں کہ ویڈیو بنانے والے خود پانی کے ساتھ بہہ گئے۔

 

حالیہ دنوں میں بارش اور سیلاب کے دوران زلزلے کے جھٹکے بھی محسوس کئے گئے تھے۔ یہ دوہری آزمائش تھی۔ لوگ ایک طرف پانی سے بھاگ رہے تھے اور دوسری طرف زمین ہلنے لگ جاتی تھی۔ ایسے میں خوف کا عالم بیان سے باہر ہوتا ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ قدرت کے سامنے ہم کچھ بھی نہیں۔ ہماری عمارتیں، ہماری سوسائٹیز، ہماری ٹیکنالوجی سب بیکار ہو جاتی ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہم احتیاط اور منصوبہ بندی کریں۔

 

 ہمارے ملک کے حکمران اور عوام دونوں ہی صرف چند دنوں یا مہینوں تک ہی تدابیر اپناتے ہیں، اس کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم بروقت لوگوں کی جانیں نہیں بچا پاتے اور ہمارا ملک پیچھے رہ جاتا ہے۔ ہم سے پہلے کی قومیں کامیاب اس لیے ہوئیں کہ وہ اگلے کئی سالوں تک کی منصوبہ بندی کرتی تھیں۔ 

 

افسوس ہمارے یہاں تو کچھ مہینوں کے لیے بھی کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتا، ہم وہی غلطیاں بار بار دہراتے ہیں،  دریا کے کناروں پر گھروں اور ہوٹلوں کی تعمیر کرواتے ہیں، لیکن اب خیبرپختونخواہ کی حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ہمیں ایک بار پھر جگانے کی کوشش کی ہے، یہ یاد دہانی ہے کہ ہم صرف عبادات پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی تدابیر بھی اختیار کریں۔ اگر ہم سنجیدگی سے چاہیں تو اگلے دس سالوں کے لیے بھی اپنے ملک کو محفوظ اور مضبوط بنا سکتے ہیں، لیکن اگر ہم چاہیں تو ہی۔

تازہ ترین