گزشتہ دنوں مجھے چکوال اور اوکاڑہ جانے کا موقع ملا۔ یہ دونوں علاقے پنجاب کی زرخیز زمینوں کے لیے مشہور ہیں، جہاں کھیتوں کی ہریالی، اناج کی خوشبو اور کسانوں کی محنت ہر طرف جھلکتی ہے۔ یہ سفر میرے لیے ایک عام وزٹ نہیں بلکہ ایک نئی سوچ اور نیا تجربہ تھا۔ وہاں میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے مجھے اندر تک متاثر کیا اور میری سوچ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
چکوال میں میری ملاقات ایسی خواتین سے ہوئی جو اپنے کھیتوں کی مالک تھیں۔ ان کے کھیتوں میں کئی مزدور کام کر رہے تھے مگر فیصلہ سازی، بیجوں کا انتخاب اور مارکیٹ کے سودے خود وہی کرتی تھیں۔ وہ فخر سے کہتی تھیں کہ یہ زمین انہیں وراثت میں ملی تھی۔
ابتدا میں گاؤں کے لوگ طنز کرتے تھے کہ خاتون کیسے کھیت سنبھالے گی؟ لیکن آج وہی خواتین گاؤں کی کامیاب کسانوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کے لہجے کا اعتماد کسی بڑے لیڈر سے کم نہ تھا یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی تھی۔
اوکاڑہ میں بھی مجھے کچھ خواتین کسان ملیں۔ ان میں سے ایک نے بڑے اعتماد سے کہا:
"اگر خاتون ڈاکٹر اور ٹیچر بن سکتی ہے تو کسان کیوں نہیں؟ کھیتی تو ہماری جڑوں میں ہے اور ہم یہ کام مردوں کی طرح بلکہ کئی جگہ بہتر بھی کر سکتی ہیں۔"
یہ جملہ سن کر میرے دل میں ایک عجیب سا سکون اور ساتھ ہی ایک نیا احساس پیدا ہوا کہ ہمارے معاشرے میں خاتون کی صلاحیتوں کو اکثر کم سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
پاکستان جیسے زرعی ملک میں خواتین کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ وہ بیج بونے، پانی لگانے، گھاس نکالنے اور فصل کاٹنے میں برابر شریک رہی ہیں۔ مگر ان کا نام کبھی "کسان" کے طور پر نہیں لیا گیا، صرف مزدور سمجھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں کھیتی بانی کی ریڑھ کی ہڈی خواتین ہی ہیں، اور اس سے انکار ممکن نہیں۔
اس کے باوجود خواتین کو کئی مشکلات کا سامنا رہتا ہے، جیسے زمین کی ملکیت کا ان کے نام پر نہ ہونا، مارکیٹ تک رسائی میں رکاوٹیں، جدید مشینری کے استعمال کے کم مواقع اور سماجی سوچ کہ کھیت صرف مرد کے لیے ہیں۔
مگر جو خواتین ان سب رکاوٹوں کو توڑ کر آگے بڑھتی ہیں، وہ معاشرے کے لیے مشعلِ راہ بن جاتی ہیں۔ اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو خواتین کسان کھیتی بانی میں مردوں کے برابر بلکہ کئی جگہ زیادہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ زرعی پیداوار بڑھانے، ڈیری فارمنگ کو آگے لے جانے اور سبزیوں و پھلوں کی کاشت میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
ان کی محنت سے نہ صرف خاندان کا خرچ چلتا ہے بلکہ بچوں کی تعلیم اور مستقبل بھی محفوظ ہوتا ہے۔ یہ خواتین دراصل "معاشی خود مختاری" کی بہترین مثال ہیں۔ جب خاتون کما کر اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے تو وہ صرف اپنی زندگی نہیں بدلتی بلکہ پورے خاندان اور گاؤں کو ترقی دیتی ہے۔
چکوال اور اوکاڑہ کی خواتین کسانوں کو دیکھ کر یہ حقیقت مزید واضح ہو گئی کہ اگر خاتون عزم کر لے تو کوئی کام اس کے لیے ناممکن نہیں۔ یہ خواتین ہمارے لیے رول ماڈل ہیں، کیونکہ وہ دکھاتی ہیں کہ محنت اور لگن سے زمین بھی خاتون کے قابو میں ہے۔
وہ ثابت کرتی ہیں کہ کاروبار صرف مردوں کا حق نہیں۔ وہ معاشرتی رویوں کو چیلنج کرتی ہیں اور نئی راہیں کھولتی ہیں۔ ان کی جدوجہد ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کامیابی جنس نہیں دیکھتی، صرف محنت اور حوصلہ مانگتی ہے۔
یہ سفر مجھے یہ سبق دے گیا کہ خاتون کسی ایک کردار تک محدود نہیں۔ وہ ڈاکٹر بھی بن سکتی ہے، انجینئر بھی، ٹیچر بھی اور سب سے بڑھ کر ایک کامیاب کسان بھی۔ چکوال اور اوکاڑہ کی بہادر خواتین کسان اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ ہم ان خواتین کو پہچانیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ حکومت، ادارے اور معاشرہ سب کو چاہیے کہ خواتین کسانوں کو وسائل، زمین کے حقوق اور مارکیٹ تک رسائی فراہم کریں۔ کیونکہ جب خاتون کھیتی بانی کرتی ہے تو وہ صرف زمین نہیں سنبھالتی بلکہ ایک پوری نسل کا مستقبل سنوارتی ہے اور یہ حقیقت بہت بڑی بات ہے۔