سعدیہ بی بی
ہمارے معاشرے میں شادی کو ایک نہایت اہم اور سنجیدہ فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف دو افراد کا ملاپ نہیں بلکہ دو خاندانوں کا آپس میں جُڑنا بھی ہوتا ہے۔ پاکستان اور دیگر مشرقی معاشروں میں آج بھی یہ روایت موجود ہے کہ والدین اپنے بچوں کے رشتے بچپن میں ہی طے کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی کہا جاتا ہے: "یہ بچہ/بچی فلاں کے لیے امانت ہے۔"
والدین اس فیصلے کو اپنی محبت، خاندانی رواج اور عزت کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے رشتے واقعی کامیاب ہوتے ہیں؟ یا یہ بچوں پر ایک ایسا بوجھ بن جاتے ہیں جو وہ بڑے ہو کر اُٹھانے سے انکار کر دیتے ہیں؟
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہمیشہ سے بحث ہوتی آئی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ رشتے کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان میں خاندانوں کی محبت اور خلوص شامل ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے لوگ دلیل دیتے ہیں کہ بچپن میں کئے گئے رشتے زیادہ تر ناکام رہتے ہیں کیونکہ بچوں کی اپنی پسند، سوچ اور معیار الگ ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں بچپن کے رشتے کیوں کئے جاتے تھے، اور اسکی وجوہات کیا تھیں؟
ماضی میں بچپن ہی سے رشتے طے کرنے کا رواج عام تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ خاندانوں کو آپس میں جوڑے رکھنا اور رشتوں کو مضبوط بنانا۔ والدین سمجھتے تھے کہ اگر رشتہ خاندان کے اندر ہو تو جائیداد اور وراثت محفوظ رہتی ہے اور زمین پر جھگڑے نہیں ہوتے۔
دیہات اور قصبوں میں ایسے رشتے عزت کی علامت سمجھے جاتے تھے، اور اگر کوئی خاندان پیچھے ہٹتا تو اسے برادری میں بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ والدین سمجھتے تھے کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں، کل کو بڑے ہوں گے تو اِسی فیصلے کو قبول کر لیں گے۔ ان کے خیال میں محبت بعد میں خود پیدا ہو جاتی ہے۔
آج کے دور میں نوجوان نسل کی سوچ بدل چکی ہے۔ اب زمانہ پہلے جیسا نہیں رہا، کیونکہ آج کے لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے بڑے فیصلے، خاص طور پر شادی جیسے معاملے میں، خود کرنا چاہتے ہیں۔
آج کی نسل کتابوں، میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا دیکھ چکی ہے، اسی لیے وہ جانتے ہیں کہ کامیاب شادی صرف خاندان یا جائیداد بچانے سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ہم آہنگی، مزاج اور دلچسپیوں کا ملنا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے وہ بچپن میں طے شدہ رشتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
اکثرجب والدین ایسے رشتوں کا ذکر کرلیں توآگے سے ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں: "وہ میرے معیار کا نہیں ہے، کہاں میں اور کہاں وہ، میں اس سے شادی نہیں کروں گا/گی۔" یہ انداز ظاہر کرتا ہے کہ آج کی نسل اپنی پسند اور خوشی کو اہم سمجھتی ہے اور پرانے وقتوں کے دباؤ کو نہیں مانتی۔
کیونکہ جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے خواب بھی بڑے ہو جاتے ہیں، اور شادی ہر کسی کا ایک بڑا خواب ہوتا ہے۔ زیادہ تر نوجوان چاہتے ہیں کہ یہ خواب اپنی پسند کے مطابق پورا کریں، اسی لیے انکار کی وجوہات عموماً شخصیت، خوبصورتی، پیسہ اور کیریئر بن جاتی ہیں۔ میرا رشتہ بچپن میں میرے ماموں زاد کے ساتھ طے ہوا تھا۔
لیکن 2005 کے زلزلے میں ان کی اچانک موت ہو گئی اور یوں وہ رشتہ ادھورا رہ گیا تھا۔ لیکن آج بھی کبھی کبھی میرے دل میں یہ سوال جاگ اٹھتا ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو کیا میں اس بچپن کے رشتے کو مانتی؟ کیا میں اس پر راضی ہو جاتی؟ یہ سوال اکثر میرے ذہن میں گردش کرتا ہے۔ اگر میں خود سے جواب دوں تو میرا جواب یہی ہوگا کہ میں بھی آج کی نئی نسل کے ساتھ کھڑی ہوتی اور اس رشتے کو نہ مانتی۔
وجہ یہ نہیں کہ دولت، شخصیت یا خوبصورتی میرے لیے سب کچھ ہیں، لیکن یہ تینوں چیزیں بھی ایک حقیقت ہیں اور شادی کے فیصلے پر اثر ڈالتی ہیں۔ لیکن میرا اصل جواز یہ ہوتا کہ میں ایک شہر کی لڑکی ہوں اور گاؤں میں زندگی نہیں گزار سکتی۔ اس لیے میرا فیصلہ بھی اپنی خوشی اور اپنے ماحول کے مطابق ہی ہوتا۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ بچے کی زندگی کا فیصلہ اس کی مرضی کے بغیر نہ کریں۔ بچوں کو چاہیے کہ والدین کے فیصلے کو عزت دیں لیکن صاف دل سے اپنی پسند اور ناپسند بھی بتائیں۔ بات چیت اور سمجھوتہ ہی کامیابی کی اصل کنجی ہے۔ روایت اور حقیقت کے درمیان توازن پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ نہ والدین کی عزت جائے اور نہ ہی بچوں کی زندگی برباد ہو۔
بچپن کے رشتے ماضی میں کامیاب رہے ہوں گے، لیکن آج کے دور میں حالات بدل گئے ہیں۔ اب صرف روایت یا عزت بچانے کے لیے بچوں پر ایسے رشتے مسلط کرنا درست نہیں۔ شادی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ اسی شخص کو کرنا چاہیے جو اس زندگی کو گزارنے والا ہے۔
اصل کامیابی اسی میں ہے کہ والدین اور بچے ایک دوسرے کی بات سنیں،سمجھیں اور محبت کے ساتھ فیصلہ کریں۔ ورنہ زبردستی کے فیصلے خوشی کے بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔