وقت بدلنے کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اپنی بیٹیوں کو چیمپئن بنائیں۔ ہم اکثر بڑے فخر سے یہ بات کہتے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے، ہم ترقی کر لی ہے، اور دلیل دیتے ہیں کہ آج وہ دور نہیں جو خواتین چار دیواری تک محدود تھیں۔ اگر ہم سچائی کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر دیکھیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ یہ دعوے اکثر کھوکھلے اور بے جا ہیں۔ ترقی کا مطلب موبائل فون کا بدل جانا، شہر میں بلند عمارتیں کھڑی کرنا یا فیشن کے انداز بدل جانا نہیں ہے۔
ترقی کا اصل مطلب یہ ہے کہ معاشرہ فکری اور عملی اعتبار سے آگے بڑھے، خاص طور پر اپنی خواتین کو وہ عزت، مواقع اور آزادی فراہم کرے جس کی وہ حقدار ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی وقت بدل گیا ہے یا ہم نے ترقی کی کچھ مظاہر کو دیکھ کر یہ خوش فہمی پال لی ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہاں، ہم نے خوش فہمی پال لی ہے۔
جب بھی بات لڑکیوں کو خود مختار اور خود دار بنانے کی بات آتی ہے، میں نے اکثر والدین سے کہا ہے کہ اجازت دیں اپنی بیٹیوں کو۔ اس ڈرپوک عادت کو ختم کریں۔ مگر والدین کے جوابات سننے پر الگ بلاگ لکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی بہت ساری لڑکیوں کے لئے وقت نہیں بدلا۔ ہمارے معاشرے میں بیشتر بیٹیاں آج بھی خوف، پابندیوں اور فرسودہ سوچ کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں ایسی بہادر خواتین کے قصے ملتے ہیں جنہوں نے جنگ کے میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ تلواریں اٹھائیں۔
وہ خواتین سلطنتوں کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی تھیں۔ ہمیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی کاروباری بصیرت یاد ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام یاد ہے۔ وہ خواتین صرف گھر کے کاموں تک محدود نہیں تھیں بلکہ قوموں کی تقدیر بدلنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتی تھیں۔
مگر آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری بیشتر بیٹیاں موٹر سائیکل یا کار چلانے کو بھی عیب سمجھتی ہیں۔ مارشل آرٹس یا کراٹے سیکھنا غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی بیٹیوں کے اردگرد ایسے خوف کے حصار پیدا کر دیے ہیں کہ وہ گھر سے باہر نکلنے میں بھی ہچکچاتی ہیں۔
ہم اکثر کہتے ہیں آج کی عورت محفوظ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی خواتین کو اپنی تعلیم، کریئر یا زندگی کے فیصلوں کے لئے کسی نہ کسی کی اجازت درکار ہوتی ہے، کبھی بھائی کی، کبھی شوہر کی اور کبھی معاشرتی دباؤ کی۔ کیا یہ ترقی ہے؟ کیا یہ وہ آزادی ہے جس کا ہم دعویٰ کرتے ہیں؟ آزادی کا مطلب بے پردگی یا روایات کو چھوڑ دینا نہیں ہے بلکہ آزادی کا مطلب ہے فیصلہ کرنے کا حق، خواب دیکھنے اور انہیں پورا کرنے کے مواقع اور آپ پر بھروسہ رکھنے کی ہمت۔
آج ماحول خوف زدہ ہے اور یہ خوف کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک پورے نظام اور سوچ کا نتیجہ ہے۔ وہ سوچ لڑکیوں کو کمزور، محتاج اور دوسروں پر انحصار کرنے والا سمجھتی ہے۔ اگر پرانے زمانے کی خواتین بہادر تھیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں بہادر بنایا گیا تھا، انہیں موقع دیا گیا تھا اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا۔
وہ مائیں اپنی بیٹیوں کو بہادری، خود اعتمادی اور خود مختاری سکھاتی تھیں۔ وہ انہیں سبق دیتی تھیں کہ مشکلات کا سامنا ڈٹ کر کرنا ہے، اپنے حق کے لئے کھڑا ہونا ہے اور کسی کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے کے بجائے اپنی محنت سے مقام حاصل کرنا ہے۔
لیکن آج کی بیشتر مائیں صرف بیٹی کو چپ رہنے، برداشت کرنے اور ہر بات پر سر جھکا لینے کا درس دیتی ہیں۔ وہ صرف پردہ یا گھرداری کا سبق دیتی ہیں، مگر یہ بھول جاتی ہیں کہ پردہ اور گھرداری تب ہی معنی رکھتی ہے، جب بیٹی کے پاس اپنے خواب جینے اور اپنی شناخت قائم کرنے کی آزادی بھی ہو۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو پرانے زمانے کی خواتین نہ صرف پردہ دار تھیں بلکہ خود دار اور آزاد بھی تھیں۔ آج کی طرح انہیں چپ رہنے اور دوسروں کی رحم و کرم پر چھوڑنے والی نہیں تھیں۔ خواتین کو مضبوط بنانے کا مطلب مردوں کو کمزور کرنا نہیں ہے۔ یہ کوئی مقابلہ نہیں بلکہ شراکت داری ہے کیونکہ ایک مضبوط عورت ایک مضبوط خاندان تشکیل دیتی ہے۔
ہمیں اپنے معاشرتی نظام کو بدلنا ہوگا۔ سکولوں اور گھروں میں بیٹیوں کو صرف کتابی تعلیم نہیں بلکہ عملی زندگی کے ہنر بھی سکھانے ہوں گے۔ انہیں موٹر سائیکل یا کار چلانا، کمپیوٹر استعمال کرنا، آن لائن کاروبار کرنا اور اپنا حق لینا سکھانا ہوگا۔ یہ رویہ ختم کرنا ہوگا کہ لڑکیوں کو صرف محفوظ رکھنے کے لئے محدود رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ حفاظت کا بہترین طریقہ کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہر لڑکی چیمپئن بن سکتی ہے اگر اسے موقع دیا جائے۔
ترقی یہ نہیں ہے کہ بیٹی کے ہاتھ میں موبائل فون آجائے یا وہ سوشل میڈیا پر تصویریں پوسٹ کر سکے۔ ترقی کا مطلب یہ ہے کہ بیٹی کے خواب حقیقت میں ڈھل سکیں، اپنی تعلیم مکمل کر سکے اور اپنے شعبے میں مہارت حاصل کر کے معاشرے کا فعال رکن بن سکے۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی بیٹی کی تعلیم کو ایک حد سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسے صرف اس لیے پڑھایا جاتا ہے کہ "اچھی شادی" ہو جائے نہ کہ اس لئے کہ وہ خود مختار اور خود کفیل ہو۔ جب تک ہم بیٹی کو بیٹے کی طرح مواقع نہیں دیں گے، وہ ایک مضبوط اور بااعتماد شخصیت نہیں بن سکے گی۔
ہمیں اسے کھیل کے میدان، سائنس کی لیبارٹری، کاروباری میٹنگز اور قیادت کے منصب تک پہنچانے کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ ہمیں یہ باور کرانا ہوگا کہ عورت کمزور نہیں بلکہ نسلوں کو پروان چڑھانے والی بنیاد ہے۔ اگر وہ مضبوط ہونگی تو آنے والی نسلیں بھی مضبوط ہوں گی۔ لیکن اگر ہم خواتین سے یہ مواقع چھین لیں تو یاد رکھیں ہماری نسلیں کمزور اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گی کیونکہ ان کی ماؤں سے تعلیم اور خودی چھین لی گئی ہوگی۔
یاد رکھیں کہ عورت کو مضبوط بنانے کے لئے صرف نعرے کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے لئے کھیل، دفاعی تربیت اور لیڈرشپ پروگرامز شروع کرنے ہوں گے۔ ہمیں میڈیا پر ایسے کردار دکھانے ہونگے جو عورت کو بہادر، بااعتماد اور خود مختار پیش کریں۔ گھر کا ماحول ایسا ہونا چاہیے جہاں بیٹی اپنی رائے کھل کر دے سکے، اپنے فیصلے خود کر سکے اور اپنی خواہشات کے بارے میں بلا جھجک بات کر سکے۔
بیٹی کو مضبوط بنانا صرف اس کے لئے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے۔ ایک مضبوط اور تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنا گھر بہتر چلاتی ہے بلکہ اپنی اولاد کو بہتر تعلیم دیتی ہے اور شریک حیات کے ساتھ زندگی کے فیصلوں میں برابر کی شریک ہوتی ہے۔ ایسی عورت غربت کے خاتمے، معاشرتی ترقی اور خوشحال معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں بیٹی کے خواب رسم و رواج کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔
وہ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا خواب دیکھتی ہے مگر شادی کے نام پر اسے پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑتی ہے۔ اگر وہ کاروبار شروع کرنا چاہتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ "یہ لڑکیوں کے لئے مناسب نہیں ہے"۔ اگر وہ سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہے تو کردار کشی کے خوف سے پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ ہم نے بیٹی کو بچپن سے یہ سکھایا ہی نہیں کہ وہ اپنی قسمت خود لکھ سکتی ہے۔ آج کا دور ہمیں یہ موقع دے رہا ہے کہ ہم پرانی سوچ کی زنجیریں توڑ کر اپنی بیٹیوں کو وہ مقام دلائیں جو ان کا حق ہے۔