سیدہ قرۃ العین
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، کبھی انسان ہاتھ سے خط لکھ کر پیغام بھیجا کرتا تھا، پھر فون آیا اور اب ہم اس دور میں ہیں جہاں( مصنوعی ذہانت) یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہماری زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ انہی ایجادات میں ایک نام ہے چیٹ جی پی ٹی، جب کوئی عام شخص اس سے بات کرتا ہے تو اکثر اسے لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی انسان سے بات کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی محض ایک مشین لینگوئج ہے، جو انسان کی طرح سوچنے یا محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
چیٹ جی پی ٹی کو اوپن اے آئی نامی ادارے نے بنایا ہے ۔یہ ایک ایسا ماڈل ہے جسے اربوں جملوں اور الفاظ پر تربیت دے دی گئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ جو سوال کریں یہ اپنے ذخیرہ الفاظ اور پرانے ڈیٹا کی مدد سے ایک موزوں جواب تیار کرے گویا یہ انسان کی طرح اپنی عقل یا شعور سے بات نہیں کرتا بلکہ صرف محفوظ شدہ معلومات کو ترتیب دے کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی لائبریری ہو جس میں لاکھوں کتابیں رکھی ہوں اور آپ کسی کتاب سے اقتباس نکال کر فوراً سامنے رکھ دیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اور چیٹ جی پی ٹی میں فرق کیا ہے؟ انسان صرف معلومات کا مجموعہ نہیں ہے۔ وہ جذبات رکھتا ہے، احساسات رکھتا ہے، ہمدردی اور محبت کے رشتے بناتا ہے، اور اپنی زندگی کے تجربات سے سیکھتا ہے جب ایک ماں اپنے بچے کو خاموش دیکھ کر اس کی تکلیف پہچان لیتی ہے تو یہ کام کوئی مشین نہیں کر سکتی۔ جب ایک دوست دوسرے کی آواز میں چھپے دکھ کو محسوس کر لیتا ہے، تو یہ احساسات چیٹ جی پی ٹی جیسے ماڈلز میں موجود نہیں ہوتے۔ یہ صرف الفاظ جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس میں نہ دل ہے نہ دماغ نہ جذبات نہ احساسات۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کبھی کبھی غلطی کرتا ہے، مثال کے طور پر اگر آپ کسی حالیہ خبر یا نئی تحقیق کے بارے میں پوچھیں تو یہ اکثر پرانی یا نامکمل معلومات فراہم کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ذخیرہ علم ایک خاص وقت تک محدود ہوتا ہے۔ اسی طرح زبان کی پیچیدگی بھی اسے کبھی کبھار الجھا دیتی ہے، ایک ہی جملے کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں اور یہ ہمیشہ صحیح مطلب نہیں پکڑ پاتا۔ اس کے علاوہ چونکہ یہ انسانی معاشرے کے ڈیٹا پر تربیت یافتہ ہے، اس لیے کبھی کبھی اس میں وہی تعصبات بھی جھلک سکتے ہیں جو معاشرے میں موجود ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان غلطیوں کو پہچانا کیسے جائے؟ یہاں انسان کی عقل اور تجربہ سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر چیٹ جی پی ٹی سے کوئی معلومات حاصل کی جائے تو ضروری ہے کہ اسے دوسرے مستند ذرائع جیسے کتاب تحقیقی مقالے یا معتبر خبروں سے ضرور چیک کیا جائے ساتھ ہی انسان کو اپنے شعور اور عام فہم کا استعمال بھی کرنا چاہیے۔ اگر کوئی جواب غیر منطقی یا عجیب لگے تو اس پر اندھا اعتماد نہیں کیا جا سکتا دراصل یہ ایک آلہ ہے جو صرف سہولت دیتا ہے حتمی فیصلہ ہمیشہ انسان نے ہی کرنا ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، یہ انسان کا نعم البدل نہیں بن سکتا مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر محض مریض کی زبان سے بیان کردہ علامات پر انحصار نہیں کرتا بلکہ مریض کے چہرے کا رنگ آنکھوں کی روشنی اور جسم کی کیفیت دیکھ کر اندازہ لگاتا ہے۔ یہ باریکیاں مشین کبھی نہیں سمجھ سکتی ایک استاد اپنے شاگرد کی آنکھوں میں جھانک کر اس کی الجھن پہچان لیتا ہے جبکہ چیٹ جی پی ٹی صرف الفاظ کا جواب دیتا ہے۔
لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی ایک بہترین سہولت ہے، جو تعلیم کاروبار اور روزمرہ زندگی میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ ہمارے سوالوں کے جواب دیتی ہے خیالات کو ترتیب دینے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور زبان سیکھنے میں بھی سہولت دیتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ محض ایک مشین ہے انسان نہیں اس میں نہ جذبات ہیں نہ شعور اور نہ ہی اخلاقیات
اصل طاقت ہمیشہ انسان کے پاس رہے گی۔
چیٹ جی پی ٹی کی درستگی بھی دراصل انسان کے دماغ تحقیق اور تجربے پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسے ایک مددگار ٹول کے طور پر استعمال کرنا چاہیے نہ کہ اپنی سوچ اور فیصلہ سازی کو مکمل طور پر اس کے حوالے کر دینا چاہیے۔
سب باتوں کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ہے کہ یہ ایجاد حیرت انگیز ضرور ہے مگر انسان کی جگہ کبھی نہیں لے سکتی انسان کے پاس دل ہے احساس ہے اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو اسے ہر مشین سے منفرد اور برتر بناتی ہیں۔ اس پر مکمل انحصار بے وقوفی ہو گی اور اپنی صلاحیتوں کا قتل ہوگا۔