اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں ایک نئے بحران نے جنم لے لیا ہے، جہاں پاکستان سے واپس جانے والے افغان مہاجرین زلزلہ متاثرہ علاقوں میں پہنچ رہے ہیں اور وہاں پہلے ہی حالات انتہائی خراب ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے نمائندہ برائے افغانستان عارف جمال نے جنیوا میں پریس بریفنگ میں بتایا کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک تقریباً 26 لاکھ افغان ہمسایہ ممالک سے واپس آچکے ہیں، جن میں سے بیشتر کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ ان میں سے کئی دہائیوں بعد اپنے ملک لوٹے ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں جو پہلی بار افغانستان آئے ہیں کیونکہ وہ جلاوطنی میں پیدا ہوئے تھے۔
پاکستان کی جانب سے "غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی منصوبہ" پر عملدرآمد دوبارہ شروع کرنے کے بعد اپریل سے اب تک پانچ لاکھ 54 ہزار افغان واپس جا چکے ہیں، صرف اگست میں ایک لاکھ 43 ہزار افراد وطن لوٹے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں تقریباً ایک لاکھ افراد نے واپسی کی، جس سے حالات مزید سنگین ہو گئے ہیں۔
یو این ایچ سی آر اور اس کے شراکت دار سرحدی علاقوں اور متاثرہ اضلاع میں واپس آنے والے خاندانوں کو نقد امداد، خیمے اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کر رہے ہیں، تاکہ وہ اپنی زندگی دوبارہ شروع کرسکیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں خواتین ملازمین پر پابندی کے باعث یو این ایچ سی آر کو افغانستان میں اپنے کیش اور امدادی مراکز عارضی طور پر بند کرنا پڑے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ خواتین کے مسائل خواتین سٹاف کے بغیر حل نہیں ہوسکتے اور فوری طور پر ان پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
عارف جمال نے بتایا کہ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں ایسے خاندان بھی ہیں جو پاکستان سے واپس آئے تھے مگر آتے ہی اپنا گھر کھو بیٹھے۔ ادارہ وہاں خیمے اور دیگر امدادی سامان تقسیم کر رہا ہے۔
یو این ایچ سی آر نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان مہاجرین کے حوالے سے اپنے انسانی ہمدردی پر مبنی رویے کو برقرار رکھے اور ان لوگوں کو قانونی قیام کی اجازت دے جنہیں وطن واپسی پر خطرات لاحق ہیں۔
ادارے نے کہا کہ ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے فوری فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ یو این ایچ سی آر نے اپنی علاقائی اپیل کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے 258.6 ملین ڈالر کی امداد کی درخواست کی ہے تاکہ افغان خاندانوں کو زندگی بچانے والی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔