ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
افغان طالبہ: جلا وطنی کی بے یقینی اور تعلیم کے ٹوٹتے خواب Home / تعلیم,خیبر پختونخوا /

افغان طالبہ: جلا وطنی کی بے یقینی اور تعلیم کے ٹوٹتے خواب

سپر ایڈمن - 11/09/2025 263
افغان طالبہ: جلا وطنی کی بے یقینی اور تعلیم کے ٹوٹتے خواب

قیام الدین ستوری 

 

“اگر ہمیں ایسے وقت میں افغانستان واپس بھیج دیا گیا، جب ہماری تعلیم پاکستان میں جاری ہے، تو ہمارا تعلیمی سفر شاید ہمیشہ کے لیے رک جائے گا۔”

یہ کہنا ہے اٹھارہ سالہ افغان طالبہ سپنا کا، جس کا تعلق افغانستان کے شہر کنڑ سے ہے اور برسوں سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر، چکدرہ کے مہاجر کیمپ میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہے۔

 

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے سپنا نے بتایا کہ مہاجر کیمپ کی زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی، لیکن اس کا خواب تعلیم ہے۔ وہ اس وقت ملاکنڈ یونیورسٹی میں ٹورزم اور ہوٹل مینجمنٹ کے تیسرے سمسٹر کی طالبہ ہے۔

 

 سپنا کہتی ہے کہ یہ تعلیم اس کے لیے صرف ایک مضمون نہیں بلکہ ایک روشن مستقبل کی کنجی ہے، ایک ایسا راستہ جو اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرے گا اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کا موقع دے گا۔

 

لیکن اب سپنا سمیت ہزاروں افغان طالبات کے خواب ماند پڑنے لگے ہیں۔ حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ 31 اگست کے بعد پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین بھی غیر قانونی قرار دیے جائیں گے۔ یہ وہی کارڈ ہے جس سے مہاجرین کو وقتی تحفظ اور قانونی حیثیت کا احساس ہوتا تھا۔  

اب اچانک لاکھوں افغان خاندانوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ اس سرزمین پر "غیر قانونی" ہیں جہاں وہ برسوں سے پناہ لیے بیٹھے ہیں۔ ان میں سپنا اور اس کا خاندان بھی شامل ہے۔

 

یہ اعلان مہاجرین کے دلوں میں خوف اور بے یقینی پیدا کر گیا ہے۔ سپنا کہتی ہے کہ یہ فیصلہ سن کر ایسے لگا جیسے اچانک کسی نے میرے پاؤں تلے زمین کھینچ لی ہو۔ تعلیم کے لیے سکون، وقت اور ذہنی اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب ہر روز یہ فکر منڈلائے کہ کل ملک بدر کر دیے جائیں گے تو طالبعلم کس طرح پڑھائی پر توجہ دے سکتا ہے؟

 اگر میں افغانستان واپس جاتی ہوں تو نہ صرف یونیورسٹی چھوٹ جائے گی بلکہ برسوں کی محنت اور خواب بھی ادھورے رہ جائیں گے۔

 

سپنا  کا کہنا ہے کہ میرے لیے یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہے اگر حکومت ہمیں واپس بھیج دیتی ہے اور میں پاکستان میں تعلیم جاری رکھنا بھی چاہوں تو میرا خاندان کبھی اجازت نہیں دے گا۔ کیونکہ میں لڑکی ہوں، وہ مجھے اکیلے پاکستان میں نہیں چھوڑیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ میری تعلیم یہیں ختم ہو جائے گی۔

 

افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث جبراً واپسی ہزاروں طالبات کے لیے تعلیم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دے گی۔ سپنا کا کہنا ہے۔ میں حکومتِ پاکستان سے گزارش کرتی ہوں کہ ہمیں وقت دیا جائے، ہمیں اجازت دی جائے کہ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں، پھر جو فیصلہ کرنا ہے کریں۔

 

سپنا اور اس جیسی دیگر طالبات دو سرحدوں کے بیچ پھنسی ہیں۔ نہ پاکستان میں مکمل قبولیت ملتی ہے اور نہ افغانستان واپس جانا ممکن ہے۔ ان کے لیے پاکستان صرف ایک پناہ گاہ نہیں بلکہ ایک تعلیمی مرکز ہے، جہاں انہوں نے مستقبل کے خواب دیکھے ہیں۔ ان کے مطابق تعلیمی سفر کو کاٹ دینا صرف ایک انتظامی فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ امید کا چراغ بجھانے کے مترادف ہوگا۔

 

تعلیم ہمیشہ سے بے گھر اور پناہ گزینوں کے لیے روشنی کی مانند رہی ہے۔ یہی روشنی انہیں غربت، جنگ اور جلاوطنی کے اندھیروں سے نکالنے کی ہمت دیتی ہے۔ افغان مہاجرین کے لیے تعلیم محض ایک سہولت نہیں بلکہ بقا ہے۔ اگر یہ چھین لی جائے تو ان کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہے گا۔

 

دنیا کو ان آوازوں کو سننا ہوگا۔ حکومتوں اور پالیسی سازوں کو یہ ماننا ہوگا کہ یہ طلبہ بوجھ نہیں بلکہ سرمایہ ہیں۔ اگر انہیں تعلیم مکمل کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکیں گے بلکہ جس معاشرے کا حصہ ہوں گے، وہاں روشنی اور مثبت تبدیلی بھی لائیں گے۔

 

سپنا کا کہنا ہے کہ وہ یہ خواب دیکھتی ہے کہ ایک دن ہوٹل مینجمنٹ کی دنیا میں اپنی پہچان بنائے، دنیا بھر کے مہمانوں کو خوش آمدید کہے اور اپنے کلچر کی نمائندگی کرے۔ مگر آج اس کی سب سے بڑی خواہش صرف یہ ہے کہ اسے اتنا وقت دیا جائے کہ وہ اپنی ڈگری مکمل کر سکے اور اپنے مستقبل کو سنوار سکے۔

 

اس کی آواز ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر مہاجر ایک انسانی کہانی ہے۔ ہر پالیسی کے پیچھے دل ہیں، خواب ہیں اور آنکھوں میں امید ہے۔ اگر موقع دیا جائے تو سپنا اور اس جیسی ہزاروں طالبات نہ صرف تعلیم حاصل کریں گی بلکہ ترقی کے پروان بھی چڑھیں گی۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہو، ان کے تعلیمی حق کو تسلیم کرے اور انہیں ایک بہتر کل کی طرف بڑھنے دے۔