ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
پشاور: والد 10 برسوں سے انڈونیشیا میں جھوٹے منشیات کیس میں قید ہے، بیٹا عبدالصمد Home / جرائم,خیبر پختونخوا,عوام کی آواز /

پشاور: والد 10 برسوں سے انڈونیشیا میں جھوٹے منشیات کیس میں قید ہے، بیٹا عبدالصمد

سپر ایڈمن - 08/09/2025 318
پشاور: والد 10 برسوں سے انڈونیشیا میں جھوٹے منشیات کیس میں قید  ہے،  بیٹا عبدالصمد

محمد سلمان


محمد ریاض کا تعلق ورسک روڈ پشاور سے ہے، کئی دہائیوں سے فرنیچر ایکسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ تھے لیکن پچھلے 10 سالوں سے انڈونیشیا کی جیل میں سزائے موت کی سزا قید کاٹ رہے ہیں۔

 

محمد ریاض کے 20 سالہ بیٹے عبدالصمد بتاتے ہیں کہ جب ان کے والد کو 2016 کے شروع میں گرفتار کیا تو ان کی عمر صرف 10 سال تھی، انہیں یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ ان کے والد کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔  بہرحال وقت گزرتا گیا اور وہ بڑے ہوتے گئے، تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والد کو منشیات کے جھوٹے کیس میں اندر کیا ہوا ہے، گرفتاری کے چند ماہ بعد ان پر سزائے موت کا حکم جاری کر دیا گیا ہے، جو روزانہ جی کر بھی مر رہے ہیں۔

 

عبدالصمد کا کہنا ہے کہ ان کے والد فرنیچر ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے، وہ یہ کاروبار آج سے نہیں بلکہ 90 کی دہائی سے کر رہے تھے وہ زیادہ تر ایکسپورٹ ترکی، سائپرس، جرمنی، تھائی لینڈ، ملیشیا اور انڈونیشیا میں کرتے تھے۔ 2013 سے ایکسپورٹ کے لیے انہوں نے انڈونیشیا کا انتخاب کیا جہاں انہوں نے اپنا سامان رکھوانے کے لیے ایک ویئر ہاؤس بھی کرایہ پر لے لیا، جہاں پر کچھ انڈونیشین بھی ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔

 

انہوں نے بتایا کہ چونکہ اب والد کا ایکسپورٹ انڈونیشیا جاتا تھا،  تو گھر والوں کی رضامندی سے انہوں نے وہاں پر بھی ایک انڈونیشین لڑکی سے شادی کر لی ان کے ساتھ وہاں کافی جگہ یعنی ویئر ہاؤس تھا، تو ان سے وہاں کچھ پاکستانیوں نے ویئر ہاؤس میں تھوڑی جگہ ایک ماہ کے لیے کرایہ پر مانگی، اس پر محمد ریاض نے جواب دیا کہ میں خود کرایہ دار ہوں میں آپ کو نہیں دے سکتا، آپ اس بارے میں ویئر ہاؤس کے مالک سے بات کریں ۔ بعد میں ویئر ہاؤس کے مالک سے ان کی بات بن گئی۔ تو انہی پاکستانیوں کے چائنہ سے منگوائے گئے جنریٹرز کی ایک کھیپ پہنچ گئی جس کے بعد ان کو ویئر ہاؤس میں رکھا گیا۔

 

عبدالصمد کے مطابق ان کے والد فروری 2016 میں جب واپس پاکستان آرہے تھے تو واپسی سے دو دن پہلے جیسے ہی وہ ویئر ہاؤس میں داخل ہوئے تو کچھ دیر بعد وہاں پر چھاپا پڑا اور تلاشی کے دوران جنریٹر سے منشیات برآمد ہوئی جس میں میرے والد ان کی بیوی، کلیرنگ ایجنٹ اور ویئر ہاؤس کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا۔

 

 چند مہینوں کی تفتیش کے بعد میرے والد کو سزائے موت سنا دی گئی ان کی بیوی تین سال قید کاٹ کر رہا ہو گئی۔ کلیرنگ ایجنٹ بھی کچھ مدت گزارنے کے بعد باہر نکل آئے جبکہ ویئر ہاؤس کے مالک بھی اندر ہیں۔  بہرحال میرے والد ایک جھوٹے کیس میں 10 سالوں سے اندر ہیں کسی کو سزائے موت سنا دینا ایسا ہے کہ روزانہ جی کر بھی مرنا ہے۔

 
اب میرے والد چونکہ اندر قید میں ہے تو ساری صورتحال انہی کو پتہ ہے کہ چائنہ سے جنریٹر لانے والے لوگ کون تھے میرے والد ہی بتا سکتے ہیں۔ ہمارا والد سے سالوں میں ایک بار بمشکل ہی رابطہ ہوتا ہے۔ وہ بھی ایک منٹ یا اس سے کم، وہاں سے فون کرنے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں جو کہ میرے والد کے پاس نہیں ہوتے۔

 

انہوں نے کہا کہ انڈونیشین ایجنٹ کے مطابق جنریٹر کنسائنمنٹ کا ریاض سے کوئی تعلق نہیں اتنی بڑی گواہی کے باوجود بھی ان کے والد کو اندر رکھا گیا ہے۔ میری والدہ بھائیوں اور مجھ میں اب اتنی سکت نہیں کہ وہ کسی کے در جا کر انہیں اپنی یہ فریاد سنائے انصاف کا ایسا کوئی دروازہ نہیں جو ہم نے نہ کھٹکھٹایا ہو لیکن کہیں سے بھی ہمیں کوئی اچھی خبر نہیں ملی۔

 

صمد کے مطابق اس کیس میں اب تک ہم 2 کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں۔ زیادہ تر  پیسے انڈونیشیا میں وکیلوں کو دیے گئے ہیں لیکن افسوس انڈونیشین وکیلوں نے ہم سے صرف پیسے بٹورے ہیں۔

 

عبدالصمد کی والدہ اور بھائیوں نے ایک بار پھر حکومت پاکستان اور خصوصا وزیر خارجہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر انڈونیشین حکومت سے بات کر کے والد کی رہائی میں اپنا کردار ادا کریں ہمیں اپنے والد پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ بے گناہ ہے اور ان کا اس منشیات سے کوئی لینا دینا نہیں۔

تازہ ترین