ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
میلاد النبی ﷺ: حقیقی محبت رسول ﷺ کی سیرت اپنانے میں ہے Home / بلاگز /

میلاد النبی ﷺ: حقیقی محبت رسول ﷺ کی سیرت اپنانے میں ہے

حمیرا علیم - 06/09/2025 103
میلاد النبی ﷺ: حقیقی محبت رسول ﷺ کی سیرت اپنانے میں ہے

حمیراعلیم 
 

عید میلاد النبیﷺ کو بطور جشن منانے کی رسم 4 ہجری میں فاطمی خلافت میں ایجاد ہوئی، پھر مظفر الدین کوکبری نے 7 ہجری میں اسے بڑے پیمانے پر منانے کا آغاز کیا۔چونکہ یہ ایک رسم ہے تو اس کی تقریبات میں نت نئی ایجادات کا اضافہ ہوتا ہی رہتا ہے۔

 

المیہ یہ ہے کہ ہم اس دن جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے چراغاں کرتے ہیں،جلوس نکالتے ہیں جن میں مسجد نبوی، روضہ رسول کے ماڈلز ہوتے ہیں۔اور اب تو حوریں اور شیطان بھی ہوتے ہیں۔محافل نعت و میلاد میں فل میک اپ نئے جوڑوں میں گانوں کی طرز پر دف اور میوزک کے ساتھ نعتیں پڑھتے ہیں دھمال ڈالتے ہیں،کھانے کھاتے ہیں۔
 

مگر افسوس جب نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونا اور ان کی حیاتِ طیبہ کو اپنی عملی زندگی میں اپناناہوتا ہے تو ہم اکثر ناکام نظر آتے ہیں۔ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ نبیﷺکی بعثت کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ان کی برتھ ڈے دھوم دھڑکے سے منائی جائے بلکہ انہیں ہمارے لیے بہترین نمونہ بنا کر بھیجا گیا تھا تاکہ ہم ان کی سنتوں اور تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر قرآن کے مطابق زندگی گزاریں۔

 

سورہ احزاب کی آیت 21 میں نبیﷺکی زندگی کو بہترین نمونہ کہا گیا ہے۔جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حب و اطاعت رسول درحقیقت یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو سنتِ نبوی کے مطابق ڈھالیں۔
 

   ہم آج رسم و رواج کے تو پابند ہیں اور سنت رسول بھلا چکے ہیں۔اگر ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں کہ ہم کتنی سنتوں پر عمل پیرا ہیں؟ ہماری عبادات، معاملات اور طرز زندگی نبیﷺ سے کتنا مماثل ہے؟ کیا ہماری عبادات میں ویسا ہی خشوع و خضوع ہے، دعائیں اور اذکار و تسبیحات ان کے جیسے ہیں؟ کیا ہم نبیﷺ جیسے نرم مزاج، رحم دل، متحمل مزاج، صابر و شاکر،صلہ رحمی کرنے والے، سچے، امین، دوسروں کے خیرخواہ، مددگار، نیک نیت، پر خلوص اور شفیق ہیں؟ کیا ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسے نبیﷺکرتے تھے؟
 

 

  تو یقین مانیے ہم میں سے اکثر تو فرض عبادات بھی بمشکل ادا کر پاتے ہیں کجا کہ قیام اللیل ، تہجد اور نوافل ادا کریں۔

 

نبیﷺ ہرکام صرف اور صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے کرتے تھے نہ کہ دنیاوی شہرت یا فوائد کے لیے۔لیکن آج ہمارے سارے اعمال دکھاوے اور ریاکاری پر مبنی ہوتے ہیں ۔میلاد کے جلسے ہوں یا دیگر مذہبی تقریبات، ان میں اکثر نام و نمود اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش غالب دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ نبی ﷺ نے فرمایاتھا:" اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔"بخاری و مسلم
 

  نبیﷺکی نرم مزاجی اور شفقت صرف اپنے ساتھیوں تک محدود نہ تھی بلکہ دشمنوں اور جانوروں کے لیے بھی آپ شفیق تھے۔دشمنوں کے ظلم برداشت کرنے کے باوجود آپ ﷺ نے صبر اور عفو و درگزر سے کام لیا۔ طائف میں جب لوگوں نے پتھر مارے تو آپ ﷺ نے بددعا کرنے کے بجائے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی۔ 

 

لیکن آج ہم ذرا سی بات پر اشتعال میں آجاتے ہیں، جھگڑنے لگتے ہیں اور غصے پر قابو نہیں رکھ پاتے بدزبانی تو کرتے ہی ہیں کبھی کبھار جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے۔ اور بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا: "پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو پائے۔"
 

نبیﷺ اس قدر سخی اور بے غرض تھے کہ کبھی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے۔جو کچھ بھی ہوتا، اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے۔ لیکن آج ہم بخل کا شکار ہیں۔ میلاد کے موقع پر لاکھوں روپے روشنیوں اور جلوسوں پر خرچ کر دیے جاتے ہیں مگر پڑوس میں بھوکے انسان کی خبر نہیں لیتے۔ یتیم کی کفالت نہیں کرتے۔ فرمان رسول ہے:" بہترین صدقہ یہ ہے کہ کسی بھوکے پیٹ کو سیر کیا جائے۔"
 

   نبیﷺ کی خاص صفت متحمل مزاجی تھی۔آپ نے کبھی کسی کو اپنی  ذات کے لیے برا بھلا نہیں کہا نہ بدلہ لیا۔آپ ﷺ ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے اور دوسروں کو عزت دیتے۔ لیکن ہماری زبانیں سختی اور تلخی سے بھری ہوئی ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کو برا بھلا کہہ دیتے ہیں اور بدسلوکی سے پیش آتے ہیں۔ یہ رویہ سنت کے سراسر خلاف ہے۔
   

 نبیﷺ نہ صرف اپنا ہر کام خود کرتے تھے، جوتے مرمت کرنا، کپڑے دھونا، بکری کا دودھ دہونا بلکہ اپنی بیگمات کی گھر کے کاموں میں بھی مدد فرماتے تھے۔کیا آج ہمارے مرد ایسے ہی ہیں؟
 

  یہ تو صرف چند خصوصیات نبوی ہیں اگر ہم نبیﷺکی تمام خوبیوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں تو شاید ایک بھی خوبی ہم اپنی ذات میں نہ پا سکیں۔جبکہ فرمان رسول ہے:"جس نے میری  ایک سنت کو زندہ کیا جب کہ میری امت فساد میں مبتلا ہو، تو اس کے لیے سو شہیدوں کے برابر اجر ہے۔"بیہقی
 

ذرا سوچئے  جب ایک سنت کے احیاء کا اس قدر اجر ہے تو اگر ہم اپنی پوری زندگی سنت رسول کے مطابق بنا لیں گے تو کس قدراجر ہو گا۔مگر افسوس ہم اجر و ہدایت کی بجائے رسوم و رواج کو ترجیح دیتے ہیں۔

 

ہمارے ہاں یہ سوچ جڑ پکڑ چکی ہے کہ دین صرف چند رسموں اور مذہبی تقریبات کو منانے کا نام ہے۔حالانکہ دین اسلام کا خلاصہ نبی ﷺ کی سیرت کو اپنانے میں ہے۔ 
 

اگر ہم واقعی رسول اللہ ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں ان کی سنتوں کو زندہ کرنا ہوگا۔ چاہے وہ عبادات سے متعلق ہوں، معاملات، اخلاق یا سماجی زندگی سے متعلق۔ہم ان کی سنتوں کو اپنائیں، ان کی سیرت کو پڑھیں اور اپنے گھروں، بازاروں، زندگیوں اور اداروں میں ان کا عملی نفاذ کریں۔
 

   ایک نہایت اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں میلاد النبی ﷺ کے موقع پر بدعات اور من گھڑت رسومات کے بجائے وہی طریقہ اپنانا چاہئے  جو خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی ولادت کے دن کے حوالے سے اختیار فرمایا۔ نبی اکرم ﷺ ہر پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا:" یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا۔" مسلم
 

اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی ولادت کی خوشی منانے کا عملی طریقہ روزہ رکھنے کے ذریعے بتایا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اس سنت کو چھوڑ کر چراغاں، جلوس اور دیگر بدعات میں الجھ گئے ہیں۔ حقیقت میں جب ہم سنت کو چھوڑ کر بدعات میں مشغول ہوتے ہیں تو بالواسطہ یہ تاثر دیتے ہیں نعوذ باللہ کہ گویا رسول اللہ ﷺ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ آپ کی ولادت کے دن کیسے خوشی منائی جائے، اور ہم آج کوئی ایسا طریقہ ایجاد کر رہے ہیں جو سنت سے بڑھ کر ہے۔ یہ سوچ سراسر گمراہی اور گستاخی ہے۔

 

 اصل محبت یہی ہے کہ ہم عید میلاد النبی ﷺ کو بدعات کے بجائے رسول اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق روزہ رکھ کر منائیں اور اپنی زندگی کو ان کی اطاعت اور اتباع سے مزین کریں۔

 

آئیے اس سال یہ دن کسی ایک سنت کا احیاء کر کے اسے اپنا کر منائیں اور سچے محب رسول ہونے کا ثبوت دیں۔