دنیا بھر میں کروڑوں افراد روزانہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر مبنی چیٹ بوٹس جیسے چیٹ جی پی ٹی استعمال کرتے ہیں۔
امریکا کی فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس انسانوں کے بولنے کے انداز پر اثر ڈال رہے ہیں۔
تحقیق کے مطابق لوگ جملے بنانے، الفاظ کے انتخاب اور گفتگو کے انداز میں ان تبدیلیوں کو اپنا رہے ہیں، جو چیٹ جی پی ٹی جیسے ماڈلز کے متعارف ہونے کے بعد عام ہوئیں۔ آسان الفاظ میں اب لوگ وہی الفاظ زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں جو چیٹ بوٹس عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔
یہ تحقیق 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد الفاظ کے تجزیے پر مبنی ہے، جو مختلف سائنسی اور ٹیکنالوجی پوڈکاسٹس میں استعمال ہوئے تھے۔ نتائج سے پتا چلا کہ چیٹ جی پی ٹی کے پسندیدہ الفاظ اب انسانی گفتگو میں بھی نمایاں طور پر سننے کو مل رہے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان ایسے ہی ہے جیسے بچے بڑوں کی زبان اور لہجے کی نقل کرتے ہیں۔ تاہم اس معاملے میں بالغ افراد اربوں الفاظ پر تربیت یافتہ اے آئی ماڈلز کی پیروی کر رہے ہیں۔
اگرچہ بظاہر یہ تبدیلی نقصان دہ نظر نہیں آتی مگر ماہرین کے مطابق مستقبل میں اس کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، کیونکہ اے آئی زبانوں کے ارتقا کے عمل کو تیز کر سکتی ہے اور انسانوں کی سوچنے کے طریقے پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔
تحقیق میں مزید کہا گیا کہ اس موضوع پر مزید مطالعات کی ضرورت ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ اے آئی کے مسلسل استعمال سے انسانی شخصیت اور رویے پر کس قسم کے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اس سے قبل مارچ 2025 میں ایم آئی ٹی میڈیا لیب اور اوپن اے آئی کی الگ الگ تحقیقات میں بھی انکشاف ہوا تھا کہ جو افراد چیٹ جی پی ٹی پر زیادہ وقت گزارتے ہیں وہ تنہائی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اوپن اے آئی کی تحقیق میں 4 کروڑ سے زائد چیٹ ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا جبکہ ایم آئی ٹی میڈیا لیب نے صارفین کو 4 ہفتوں تک مانیٹر کیا تھا۔
ان تحقیقات کے مطابق چیٹ جی پی ٹی سے بار بار رابطہ کرنے سے انسان کے جذبات متاثر ہوتے ہیں اور تنہائی کا احساس بڑھ سکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید گہرائی میں کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نتائج محدود مدت اور محدود ڈیٹا پر مبنی ہیں۔