ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
سیلاب زدگان کے نام پر امداد مگر حقیقت کچھ اور!!! Home / بلاگز /

سیلاب زدگان کے نام پر امداد مگر حقیقت کچھ اور!!!

رعناز - 04/09/2025 106
سیلاب زدگان کے نام پر امداد مگر حقیقت کچھ اور!!!

رعناز

 

سوات میں میرے کچھ جاننے والے اور فیملی والے رہتے ہیں۔ حالیہ سیلاب کے بعد میرے گھر والوں نے ان کو فون کیا اور خیریت دریافت کی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے ایک ایسی بات بتائی جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔

 

 انہوں نے کہا کہ  سیلاب زدگان کے لیے بہت زیادہ مالی امداد اور سامان آ رہا ہے، لیکن افسوس کہ وہ ہم تک نہیں پہنچ رہا۔ پتہ نہیں وہ کہاں جا رہا ہے اور کس کے پاس رک رہا ہے۔

 

یہ سن کر میرا دل  بہت ذیادہ دکھی ہوا۔ کیونکہ امداد تو اصل میں ان ہی مظلوموں کے لیے اکٹھی کی جاتی ہے، جن کے گھر، زمینیں اور مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے، لیکن اگر وہ امداد ان کے پاس نہ پہنچے تو پھر یہ انصاف اور انسانیت کہاں باقی رہتی ہے؟

 

گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں، خصوصاً سوات، شانگلہ ، بونیر اور دیگر وادیوں میں آنے والے سیلاب نے ہزاروں گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ لوگ کھلے آسمان تلے آ گئے، کھانے کو کچھ نہ رہا، پینے کا صاف پانی بھی مشکل سے ملا۔ ان حالات میں پورے ملک سے عوام نے بڑھ چڑھ کر امداد دی۔

 

شہروں میں چندہ مہمات چلیں، نوجوانوں نے سڑکوں پر کھڑے ہو کر چندہ اکٹھا کیا، خواتین نے گھروں سے کپڑے، برتن اور کھانے پینے کی اشیاء دیں، اور ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق سیلاب زدگان کا سہارا بننے نکلا۔ یہ ہمارا ایک بہترین اجتماعی رویہ ہے، جو ہمیشہ قدرتی آفات میں نظر آتا ہے۔ لیکن اس بار سوات کے کچھ حصوں سے ایسی آوازیں سننے کو ملیں جنہوں نے اس تصویر کو داغدار کر دیا۔

 

میری فیملی اور جاننے والوں کا کہنا تھا  جو سوات کے رہنے والے ہیں کہ اگرچہ امداد کے ٹرک اور سامان کے ذخیرے نظر آتے ہیں، مگر حقیقی متاثرین تک وہ چیزیں نہیں پہنچ رہیں۔ ان کا کہنا تھا ہم دیکھ رہے ہیں کہ جگہ جگہ امداد کے نام پر شور ہے، مگر جب ہمارے دروازے تک کچھ نہیں پہنچتا تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔

 

یہ صرف ایک گھر یا خاندان کی شکایت نہیں ہے، بلکہ ایسے کئی متاثرین ہیں جن کا یہی کہنا ہے کہ “ہمارے حصے کی مدد کہیں راستے میں رُک گئی ہے۔” اور سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض لوگ ان امدادی سامان کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔

 

یہ سوال ہم سب کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیےکہ کیا یہ انسانیت ہے کہ سیلاب زدگان کے نام پر پیسہ اور سامان جمع ہو، لوگ اپنی محنت کی کمائی دیں، لیکن وہ حق داروں تک نہ پہنچے اور کچھ افراد اس پر قبضہ جما لیں؟

 

یہ عمل صرف متاثرین کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ پوری قوم کے اعتماد کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ کل جب کوئی اور آفت آئے گی تو عوام سوچے گی کہ ہم کیوں چندہ دیں، جب یہ مستحقین تک نہیں پہنچنا۔

 

یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ہر جگہ بدانتظامی ہوئی۔ سوات کے کئی علاقوں میں امداد صحیح طریقے سے تقسیم ہوئی، نوجوانوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر پہاڑی راستوں سے خوراک اور ادویات متاثرین تک پہنچائیں۔

 

 بہت سے خاندان آج بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ عوام نے ان کا ساتھ دیا۔یہ وہ پہلو ہے جس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے، لیکن ساتھ ساتھ ان کمزوریوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے جہاں متاثرین خالی ہاتھ رہ گئے۔

 

اگر ہم واقعی سیلاب زدگان یا کسی بھی آفت کے متاثرین کی مدد کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں امداد کے نظام کو شفاف بنانا ہوگا۔مقامی معتبر لوگوں پر مشتمل رضاکارانہ کمیٹیاں بنائی جائیں جو براہِ راست تقسیم کی نگرانی کریں۔

 

امداد کے حوالے سے واضح رپورٹنگ ہو کہ کس گاؤں میں کتنا سامان پہنچا۔عوام کو حق دیا جائے کہ وہ سوال کریں اور اپنے دیے گئے چندے کا حساب مانگ سکیں۔ایسا نظام نہ صرف متاثرین کے حقوق کی حفاظت کرے گا بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال کرے گا۔

 

آخر میں میں اپنے ان رشتہ داروں اور جاننے والوں کی بات دہرانا چاہوں گی  کہ امداد تو بہت زیادہ آ رہی ہے، لیکن افسوس یہ ہم تک نہیں پہنچ رہی۔ یہ صرف ایک شکوہ نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں اپنی کمزوریاں نظر آنی چاہئیں۔ اگر ہم نے ان پر قابو نہ پایا تو آئندہ کوئی بھی آفت ہمارے اتحاد اور اعتماد کو ٹوٹا ہوا پائے گی۔

 

اصل انسانیت یہ ہے کہ مظلوموں کا حق ان تک پہنچے، اور ہم دکھاوے کی نہیں بلکہ خلوصِ دل سے خدمت کریں۔ اگر ہم نے یہ سبق سیکھ لیا تو نہ صرف سیلاب زدگان بلکہ آنے والی نسلیں بھی ہمیں دعائیں دیں گی۔

تازہ ترین