سید نظیر
پشاور کے ایک کمرے میں، جہاں دیواروں کی پلاسٹر جھڑ چکی ہے، ایک افغان خاتون صحافی اپنے مستقبل کے فیصلے کی منتظر ہے۔ کابل میں کبھی ان کی آواز سچ اور بہادری کی علامت سمجھی جاتی تھی، لیکن 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی زندگی، آزادی اور کیریئر سب کچھ غیر یقینی میں بدل گیا۔
انہوں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ میری ایک ساتھی صحافی کو طالبان نے گرفتار کیا۔ تشدد کے دوران اس نے ساتھیوں کے نام بتا دیے، میرا نام بھی ان میں شامل تھا۔ ہم نے واٹس ایپ پر ایک دوسرے سے بہت سی باتیں کی تھیں جو طالبان کے ہاتھ لگ گئیں۔ اس کے بعد میں جان گئی کہ کابل کی گلیوں میں اب میرا چلنا خطرے سے خالی نہیں”۔
پاکستان ہجرت اور مشکلات
دوسرے ہزاروں افغان شہریوں کی طرح وہ بھی سرحد پار کرکے پاکستان آگئیں۔ لیکن یہاں زندگی ان کی امیدوں کے برعکس نکلی۔ پناہ کی درخواست رکی رہی، کاغذات مکمل نہ ہوئے اور وقت گزرتا گیا۔
“نہ ہم اپنے وطن میں رہ سکتے ہیں، نہ ہی غیر ملک میں جینے کا حق دیا جاتا ہے۔ میں مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور سکون کے لیے دواؤں پر انحصار کرنا پڑتا ہے”۔
ڈیڈ لائن کا دباؤ
اب ان کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔ یکم ستمبر کے بعد پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے پروف آف رجسٹریشن (PoR) کارڈز کی عارضی توسیع ختم ہوگئی ہے۔ اب جو افغان بغیر کاغذات کے موجود ہیں وہ گرفتاری اور ملک بدری کے خطرے میں ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 29 لاکھ افغان موجود ہیں، جن میں 14 لاکھ رجسٹرڈ اور 7 لاکھ غیر رجسٹرڈ ہیں۔ صرف 2023 سے اب تک 9 لاکھ 10 ہزار افغان واپس بھیجے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم نے خبردار کیا ہے کہ یہ پالیسیاں خاص طور پر خواتین صحافیوں، اقلیتوں اور ان افراد کے لیے خطرناک ہیں جو تیسرے ممالک میں مقیم ہونے کے انتظار میں ہیں۔
افغان خواتین صحافیوں پر دباؤ
رپورٹس کے مطابق طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں تقریباً 80 فیصد خواتین میڈیا ورکرز اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکی ہیں۔ صحافی کہتی ہیں کہ ہماری نسل کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ کبھی ہم نیوز رومز میں تھے، اب بے یار و مددگار ہیں۔ ایک طرف ڈنڈا ہے، دوسری طرف شیر۔ میں نہیں جانتی کس طرف جاؤں۔”
درخواست برائے تحفظ
پشاور میں مقیم اس خاتون صحافی کی اپیل ہے کہ یا تو ہمیں مزید وقت دیا جائے یا ویزا کا عمل آسان اور سستا کیا جائے تاکہ ہم کاغذات بنوا سکیں۔ تاہم، ان کی فریاد اب تک کسی نے نہیں سنی اور ان کا مستقبل بدستور غیر یقینی ہے۔