نازیہ
”چلو آج بورڈ بازار جاتے ہیں ویسے بھی افغانی اپنے ملک جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ سستے داموں اپنے گھر کا قیمتی سامان بھیچ رہے ہوں گے۔“
”براۓ مہربانی اگر آپ کو پتہ چلیں کہ افغانی سستے داموں قیمتی سامان بھیچ رہے ہو تو مجھے بتانا میں نے خریدنا ہے۔“
"ارے بھائی یہ سامان مجھے سستا دیں دو کچھ تو فائدہ ہوگا آپ کو، اپنے ساتھ لے جا کر کیا کر لوگے“
۔
یہ وہ الفاظ ہے جو آج کل تقریباً ہر کسی کے منہ پر ہے۔ مگر یقین مانیں میرا تو دل دکھتا ہے، محض یہ سوچتے ہوۓ بھی کہ آخر ہم کیسے ان کے سامان کو ہاتھ تک لگائیں کیونکہ انہوں نے مہنگائی اور مسافرت کی اس زندگی میں کتنے پیار سے خریدا ہوتا ہے۔ اور مجبوری میں اس کو بیچنا انتہائی دکھی کر دیتا ہے انسان کو۔
ایسے میں اپنے گھریلوں سامان کو اپنے ساتھ لے جانا انتہائی مشکل کام ہے، جس کی وجہ سے افغانی جگہ جگہ پر سامان کی ڈھیر لگائیں ان کو سستے داموں بیچ رہے ہیں۔ لیکن ہم سب اتنے بے حس اور خود غرض ہوتے ہیں کہ ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ کہی بھی سستی قیمت پر قیمتی سامان بیچا جا رہا ہوتا ہے، تو ادھر پہنچ جاتے ہیں اور 10 روپے کی چیز دو روپے پر لینے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے اگر ہم ان کی مدد نہیں کر سکتے تو ان سے چیزیں کم قیمتوں پر کیوں لیں؟
یہی حال صرف گھر کے سامان کا نہیں، گاڑی ہو، گھر ہو اور یا کوئی اور بزنس وغیرہ ، تاوان افغانی ہی کا ہوتا ہے کونکہ ایمرجنسی میں ملک چھوڑتے وقت انسان کس کس مشکل کا مقابلہ کریں۔
شاید آپ سب کو معلوم بھی ہوگا کہ افغانی دنیا بھر میں اچھی خوراک، بہترین لباس اور گھر کی سجاوٹ کے بارے میں مشہور ہے۔ خواہ وہ کسی جگہ ایک مہینے کے لیے بھی جا رہے ہو تو وہ گھر کو اتنے پیار اور زینت سے سجاتے ہیں کہ بندہ حیران ہی رہ جائیں۔ ایسے میں اپنے سامان کو انتہائی سستے داموں بیچنا کتنا اذیت ناک ہوگا کیونکہ اس سامان سے انسان کی کتنی یادیں جڑی ہوتی ہے۔
خواتین کا پسندیدہ مشغلہ ہی یہی ہوتا ہے کہ ان کے پاس جتنے بھی پیسے آتے ہیں ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کیسے گھر کو سجایا جائیں، اور کیسے انکا گھر اوروں سے مختلف لگیں۔ مہنگائی کے اس دور میں اگر ایک خاتون بازار سے چن چن کر سامان لاتی ہے تو سمجھیں کہ اس کو اپنا سامان کتنا پیارا ہوتا ہے۔
نہ جانے کیوں ہم سب کو پنا سامان انتہائی قیمتی اور بہترین نظر آتا ہے مگر کسی اور کا خاص کر مجبور انسان کا ہو تو مفت میں لینے کا دل کرتا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے کہ کہی جا رہی تھی تو ایک بزرگ افغانی خاتون لیڈیز شوز بیچ رہی تھی اور یہ کہہ رہی تھی کہ ہم نے افغانستان جانا ہے اور اپنے ساتھ اس سامان کو نہیں لے جا سکتے۔
جیسے ہی میری نظر جوتوں پر پڑی تو جوتے سیکنڈ ہینڈ تھے لیکن پھر بھی اچھی کوالٹی کے تھے اور قابل استعمال تھے تو وہاں پر کھڑی ایک خاتون نے ایک جوڑے کا نرخ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی قیمت ستر روپے ہیں تو وہ خاتون بولی مجھے چالیس روپے کے دیں دو۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک بندہ اور خاص کر ایک خاتون بے بسی کی حالت میں سامان بیچ رہی ہو تو اس بے بسی کی وجہ سے آپ کو وہ قیمتی سامان دو روپے کا لگنے لگتا ہے۔
نہ جانے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کیوں بے حس اور بے پرواہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ جو بھی افغانی اپنے ملک جاتا ہے تو انہوں نے پاکستان میں دہائیاں گزاری ہوتی ہے۔ کچھ تو ایسے لوگ ہیں جو یہاں پر پیدا ہوئیں، جوان ہوئیں اور بوڑھے ہوئیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کو اپنے ماں باپ گود میں لائیں تھے اور یہاں بوڑھے ہوئیں۔
ایسے میں جب ان کے جانے کا وقت ہوتا ہے تو وہ پاکستان کو اپنا ہی ملک سمجھ رہے ہوتے ہیں اور یہاں پر پاکستانیوں کے ساتھ ان کے بڑے اچھے تعلقات ہوتے ہیں اور کاروبار بھی۔ تو کیا ہمارا حق نہیں بنتا کہ جاتے وقت جو غریب ہو ہم ان کے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کریں تاکہ وہ اپنے ساتھ اپنا سامان لے جا سکیں؟
کیونکہ اکثر وقت کی کمی کی وجہ سے ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سامان اچھے داموں بیچ سکیں۔ اکثر ایسے بھی ہوتا ہے کہ وہ سامان مفت میں کسی کو دیں دیتے ہیں کیونکہ اپنے ساتھ لے جانے میں اس پر کافی پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ ایک ایک ٹرک کی قیمت پچاس ہزار سے زائد ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا سامان بیچ کر اپنے کرائے کا بندوبست کر لیتے ہیں۔
اکثر جب یہ لوگ جا رہے ہوتے ہیں تو طورخم بارڈر پر انتہائی رش ہوتا ہے اور وہاں پر یہ لوگ بھوکے پیاسے پورا دن گزار لیتے ہیں تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کریں۔ ہمیں ان کو پیار سے رخصت کرنا چاہیے اور جاتے وقت ان کے ساتھ پیار سے پیش آنا چاہیے تاکہ وہ اپنے ساتھ اچھی یادیں لے کر جائیں۔