عظمیٰ اقبال
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی خوبصورت وادیاں، جہاں فطرت اپنے حسین نظاروں کے رنگ بکھیرتی ہیں، وہیں یہاں کے لوگ بھی اپنی محنت اور صلاحیت سے ہر میدان میں نام کماتے ہیں۔
انہی میں سوات کی باہمت خواتین بھی شامل ہیں جو کھیل کے میدانوں میں پاکستان کا پرچم بلند کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔ مگر افسوس کہ وسائل کی کمی، کوچز کی عدم موجودگی اور حکومتی عدم توجہی ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آتی ہے۔
سوات کے علاقے چار باغ سے تعلق رکھنے والی بیڈمنٹن پلیئر جویریہ کہتی ہیں کہ وہ کئی بار ضلعی سطح پر پہلی پوزیشن حاصل کر چکی ہیں، لیکن انہیں رہنمائی دینے کے لیے کوئی خاتون کوچ دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں قومی یا بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کا کبھی موقع نہیں ملا۔
ان کا کہنا ہے کہ"نہ میرے پاس اتنے وسائل ہیں کہ میں خود کو اسپانسر کر سکوں۔ میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں انٹرنیشنل لیول پر کھیلوں اور پاکستان کے لیے گولڈ میڈلز جیتوں۔"
جویریہ کے والد، جو دست ساز اشیاء اور ٹوپیوں کا کاروبار کرتے ہیں، کہتے ہیں"اپنی بیٹی کے خواب کو حقیقت بنتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اپنی استطاعت کے مطابق سہارا دیتا ہوں، لیکن قومی اور بین الاقوامی سطح تک پہنچانے کے لیے بڑے وسائل درکار ہیں اور یہ اخراجات میرے بس سے باہر ہیں۔ اگر حکومت یا ادارے مدد کریں تو میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ میری بیٹی دنیا کے بڑے مقابلوں میں حصہ لے۔"
بین الاقوامی سطح پر پاکستان تائیکوانڈو ٹیم کی کوچ رہنے والی نورین، جو سوات ہی سے تعلق رکھتی ہیں، کا کہنا ہے کہ میری خواہش ہے کہ سوات کی خواتین کھلاڑیوں کو تربیت دوں تاکہ وہ پاکستان کے لیے اعزازات حاصل کریں۔ مگر سہولتوں اور سرکاری تعاون کی کمی اس خواب کو مشکل بنا دیتی ہے۔
ال راؤنڈر کھلاڑی سمعیہ فضل، جو قومی سطح پر ٹائیکوانڈو میں دوسری پوزیشن حاصل کر چکی ہیں، کہتی ہیں کہ سوات کی خواتین کھلاڑی کوچنگ اور رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف میچز ہارتی ہیں بلکہ کئی باصلاحیت کھلاڑی آگے بھی نہیں بڑھ پاتیں۔
دیگر ٹیموں کو کوچز کی مدد ملتی ہے جبکہ ہمیں اس سہولت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اگر ہمارے پاس تربیت دینے والے ہوں تو نتائج بالکل مختلف ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ریجنل اسپورٹس آفیسر (سوات) طارق محمد کہتے ہیں کہ ہم مستقبل میں مختلف علاقوں میں کھیلوں کے میدان تعمیر کریں گے۔ فنڈز برابر تقسیم کیے جاتے ہیں۔
فی الحال ہمارے پاس صرف دو مرد کوچز ہیں، تاہم ضرورت پڑنے پر دوسرے علاقوں سے کوچز بلاتے ہیں۔ ان شاء اللہ مستقبل میں خواتین کوچز بھی مقرر کیے جائیں گے۔
سوات کی خواتین ہمت اور جذبے میں کسی سے کم نہیں۔ ان کا عزم اور صلاحیت یہ ثابت کرتی ہیں کہ اگر انہیں درست پلیٹ فارم، کوچنگ اور مالی سہولت فراہم کی جائے تو وہ قومی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا جھنڈا بلند کر سکتی ہیں۔
حکومت، نجی اداروں اور اسپورٹس حکام کو چاہیے کہ اس ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ سوات کی یہ خواتین کھلاڑی اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں۔